بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی طرف سے ملنے والی شہری سہولت سے غیر شہری کا فائدہ اٹھانا


سوال

1- ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کےلیے مختلف مواقع پر وظیفہ دیا جاتاہے۔

2- وہاں پر گاڑی یا جو بھی چیز لینی ہو تو صرف شہریوں کو اجازت ہے باہر کا کوئی بندہ نہیں لے سکتا۔

3- کوئی شہری مرجائے تو گورنمنٹ وظیفہ بند کردیتی ہے، اور بنک بیلنس کو روک  لیتی ہے جب تک ان کے ورثاء کی فہرست نہیں پیش کی جاتی۔

سوال یہ ہے کہ ایک شہری پاکستان آگیا اور یہاں فوت ہوا،  حکومت کو پتہ نہ چلا اور ابھی تک  سارے سہولیات سے اس کے بچے جو ملائشیا کے شہری نہیں ہیں فائدہ اٹھا رہے ہیں ، لیکن حکومت ملائشیا کو یہ پتہ ہے کہ ان کے بچے دوسرے ملک کے شہری ہیں،  وہ بچے مستفید ہورہے ہیں،  تو  ان  کے لیے  ان سہولیات سے فائدہ اٹھا نا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے اگر کوئی سہولت اپنے شہری کو ملتی ہے تو وہ”عطیہ“ ہوتی ہے اور وہی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس میں نامزد ہو، اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی، لہذا نامزد شہری کے علاوہ اس کے کسی وارث کا یا اس فرد کا اس  سہولت سے فائدہ اٹھانا جو اس کے لئے نامزد نہیں یا وہ اس ملک کا شہری نہیں، جائز نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مرحوم شخص کو حکومتِ ملائشیا کی طرف سے جو سہولیات بطورِ شہری حاصل تھیں ، وہی اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھایا اس کی زندگی میں اس کی اولاد (جو ملائشیا کی شہری نہیں) اس سہولت سے اس کے اہل و عیال ہونے کی بناء پر قانوناً فائدہ اٹھا سکتے تھے، اب اس کے انتقال کے بعداس کی اولاد  کا اس سہولت سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں، انہیں چاہیئے کہ حکومت کو اس شخص کے انتقال سے مطلع کریں، اس کے بعد اگر حکومت ان کو شہریت دے یا ان سہولیات سے مستفید ہونے کی اجازت دے تو پھر یہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

حديث شريف ميں هے:

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّ عُمَرَ أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ، إِنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ، وَتَصَدَّقَ بِهِ فِي الْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى وَفِي الرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ» . قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ."

(مشكاة المصابيح، كتاب البيوع، باب العطايا،الفصل الاول، رقم الحديث:3008)

الاشباه وا لنظائرمیں ہے:

"أوقاف الأمراء والسلاطين كلها إن كان لها أصل من بيت المال أو ترجع إليه، فيجوز لمن كان بصفة الاستحقاق..... ومن لم يكن بصفة الاستحقاق من بيت المال لم يحل له الأكل من هذا الوقف."

(الاشباه والنظائر لابن نجيم،ص:167، ط: دارالکتب العلمیۃ)

غمز عیون الابصار شرح الاباہ والنظائر میں ہے:

"وصرح الشيخ قاسم في فتاويه بأن من أقطعه السلطان أرضا من بيت المال ملك المنفعة المعدة لها العين فله إجارتها وتبطل بموته أو بإخراجه من الإقطاع؛ لأن السلطان له أن يخرجه منها (انتهى)."

(غمز عیون الابصار،243/2، ط:دارالکتب العلمیۃ)

بدائع الصنائع ميں هے:

"و لايصح الصلح والاعتياض؛ لأن الاعتياض عن حق الغير لايصح و لايجري فيه الإرث؛ لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - ‌من ‌ترك ‌مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل."

(بدائع الصنائع،كتاب الحدود، 57/7، دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں