میں کینیڈا کا باشندہ ہوں، مجھے میڈیکل انشورنس کے متعلق سوال کرنا تھا، مدلل جواب دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ کینیڈا میں میڈیکل بہت ہی نہایت مہنگا ہے، کہا جاتا ہے کہ اگر اپنے جیب سے علاج کروائیں تو مفلس ہونے کا خطرہ ہے، تو اس لیے لوگ انشورنس لیتے ہیں (ضرورتاً)، یہاں کینیڈا میں عوام حکومت کو ٹیکس دیتی ہیں۔ دیگر منافع (جو حکومت عوام کو دیتی ہے ٹیکس کے بدولت) میں سے میڈیکل انشورنس ہے، جس کے لیے باقاعدہ طور پر الگ سے کوئی رقم نہیں جمع کرواتے، اور اس کا لینا اختیاری ہے (ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے طرف سے پابندی ہے کہ : لو!)۔
تو سوال یہ تھا کہ اس سخت مہنگائی کی بنیاد پر ضرورتاً حکومتی انشورنس لے سکتے ہیں يا نہیں؟ اگر نہیں تو مہنگائی کا حل کیا ہوگا اور علاج کیسے کرایا جائے؟ راہنمائی فرمادیں۔ نیز یہاں حضرات نے مہنگائی کو عذر کہہ کر ضرورتاً میڈیکل انشورنس کو جائز قرار دیا ہے، تو اگر آپ حضرات کا جواب نہیں ہے تو ہم انہیں کیا جواب دے؟
واضح رہے کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت عوام کو طبی سہولت کی غرض سے میڈیکل انشورنس کے طور پر طبی خدمات فراہم کرتی ہو، اور اس فراہمی کے عوض میں عوام سے کسی قسم کی رقم نہ لی جاتی ہو، تو ایسی صورت میں عوام کے لیے مجبوری میں مذکورہ حکومتی میڈیکل انشورنس لینے کی شرعاً گنجائش ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ (کینیڈا) شہر میں حکومت کی طرف سے عوام کو میڈیکل انشورنس فراہم کی جاتی ہے، اور عوام سے اس فراہمی کے عوض کوئی رقم بھی نہیں لی جاتی اور نہ ہی عوام اس کے عوض کوئی رقم جمع کراتی ہے، تو ایسی صورت میں مذکورہ حکومتی میڈیکل انشورنس سے مجبوراً فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:
"العطية: هي ما أعطاه الإنسان من ماله لغيره، سواء كان يريد بذلك وجه الله تعالى، أو يريد به التودد، أو غير ذلك."
(تحت عنوان الزکاۃ، ج: 23، ص: 227، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية ۔ الكويت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(هي) لغةً: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعًا: (تمليك العين مجانًا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه... (وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء، وأخروي."
(كتاب الهبة، ج: 5، ص: 687، ط: سعید)
موسوعۃ القواعد الفقہیۃ میں ہے:
"التّبرّع: هو إعطاء مجّاني دون مقابل."
(ج: 8، ص: 868، ط: دار الرسالة العالمية)
مفتی ولی حسن صاحبؒ دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن سے جاری شدہ اپنے ایک فتوی میں تحریر فرماتےہیں:
سوال
میں ایک پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہوں ، سعودی عرب کے لیبر قوانین کے تحت ملازمین کے تمام طبی اخراجات کمپنی کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، لیکن ملازمین کے بیوی، بچوں کے طبی اخراجات کمپنی کے ذمہ نہیں۔ ہماری کمپنی ایک نئی اسکیم رائج کر رہی ہیں جس کے تحت بیوی، بچوں کے اخراجات بھی کمپنی ہی برداشت کرے گی بشرطے کہ ملازم ایک انشورنس (بیمہ) کا فارم بھر کر اور دستخط کر کے دے۔ کمپنی بیوی، بچوں کے طبی اخراجات ادا کر دے گی اور خود انشورنس کمپنی سے یہ پیسہ وصول ہو جائے گا۔ انشورنس پریمیم یعنی انشورنس کمپنی کی فیس ہماری کمپنی خود ادا کرے گی ہمیں کوئی حصہ بھی برداشت نہ کرنا ہوگا۔ میرا جو کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہے، اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ وہ میرے بیوی، بچوں کے طبی اخراجات اٹھائے گی، لیکن سعودی عرب میں طبی اخراجات بےانتہاء مہنگے ہیں اس لیے دل چاہتا ہے کہ اس اسکیم میں شرکت کر لوں۔ آیا میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟
جواب
جب ملازم اس بیمہ اسکیم میں کوئی رقم ادا نہیں کرتا اور سب کچھ حکومت کرتی ہے تو اس قسم کا بیمہ جائز ہے ۔
(فتوی نمبر: 395، بتاریخ: 30 شعبان، 1400ھ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100483
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن