بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی سودی اسکیموں سے قرض لینے کا حکم


سوال

حکومتِ وقت کی طرف سے بے روزگار افراد کے لیے اعلان کردہ اسکیموں سے قرض لینے کا کیا حکم ہے؟ان اسکیموں کا مارک اپ انتہائی کم ہوتا ہے، مثلاً:5لاکھ قرض پر 5سال کی مدت کے لیے 5لاکھ 50ہزار رقم واپس کرنا ہوگی، جب کہ دوسری طرف ایک کیری (گاڑی) کی اصل قیمت20 لاکھ روپے ہے، 5سال کی مدت پر 25 لاکھ رقم واپس کرنا ہوگی، گاڑی اسکیم اور 5لاکھ نقد اسکیم دونوں ایک ہی اسکیم "پنجاب روزگار سکیم" کے تحت ملتی ہیں، کیا اس اسکیم سے اپنا روزگار شروع کیا جا سکتا ہے؟ اگر گاڑی لینا جائز ہے تو کیوں؟اسی طرح  اگر نقد رقم لینا حرام ہے تو کیوں حرام ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کی گئی اسکیم  کے ذریعے لیے گئے  قرضہ کے عوض سود ادا کرنا پڑتا ہے اور جس قرضہ کے عوض سود دینا پڑتا ہو ایسا قرضہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے، لہٰذا اس اسکیم کے ذریعے کاروبار شروع کرنا جائز نہیں ہے، نقد اسکیم میں قرض لوٹاتے وقت اضافی رقم کے ساتھ لوٹانا لازم ہوتا ہے، یہی سود ہے، جو کہ حرام ہے، اسی طرح گاڑی کے لیے مثلاً بیس لاکھ روپے  ادا کرنے کے بعد پچیس لاکھ روپے واپس لیا جاتا ہے، یہ بھی سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

البتہ اگر گاڑی کی اسکیم میں قسطوں پر گاڑی دی جاتی ہو اور قسطوں پر بیع کی وجہ سے پانچ لاکھ روپے اضافی طلب کرنا جائز نہیں ہے،البتہ سودا کرتے وقت گاڑی کی قیمت بیس لاکھ کے بجائے پچیس لاکھ مقرر کی جائے اور قسطوں میں یہی پچیس لاکھ وصول کیے جائیں تو درست ہے، اور  قسط کی رقم متعین ہونے کی صورت میں مدت اور قسط متعین ہو اور  کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:٧، ص:٣٩٥، ط:دارالكتب العلمية)

2۔شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط."

(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثانی في بيان المسائل  المتعلقة بالنسيئة و التأجيل، المادة:٢٤٥، ٢٤٦،ج:١، ص:١٠٠،  ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں