بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی اجازت کے بغیر کلینک کھولنے اور اس کی کمائی کاحکم


سوال

 ہمارے ملک میں ڈسپنسر یا میدیکل ٹیکنیشن کو میڈیکل اسٹور یا کلینک جس  میں  مریضوں کا چیک اپ کیا جاتا ہے،  کھولنے کی  قانوناً اجازت نہیں ہے، اور ہم نے گاؤں میں اپنا کلینک کھولا ہے، جو تقریبا شہر ہی میں آتا ہے،   یہاں پر ہم بچوں عورتوں مردوں سب کا علاج کرتے ہیں یہ آمدن ہمارے لیے کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل مستند ڈاکٹر نہیں ہے یا مستند ڈاکٹر کے پاس رہ کر طب کو نہیں سیکھا ہے، اور کسی مستند ڈاکٹر نے اس کو ڈاکٹری کی اجازت نہیں دی، تو اس صورت میں سائل کے لیے کلینک کھولنا جائز نہیں ہوگا، اور آمدن بھی حلال نہیں ہوگی اورحکومت کی اجازت کے بغیر ڈسپنسر یا میڈیکل کھول کرمریضوں کو چیک کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، باقی دوائی کی قیمت حلال ہوگی، اور اگر حکومت کی طرف سے اجازت ہے یا کسی مستند ڈاکٹر کےپاس رہ کرطب کو سیکھنے کے بعد اس نے ڈاکٹری کرنے کی اجازت دی ہے، تو  پھر کلینک کھولنا، مریضوں کو چیک کرنا جائز ہوگا، اور آمدنی بھی حلال ہوگی۔

 زاد المعاد میں ہے:

"فصل القسم الثاني: مطبب جاهل باشرت يده من يطبه، فتلف به، فهذا إن علم المجني عليه أنه جاهل لا علم له، وأذن له في طبه لم يضمن، ولا تخالف هذه الصورة ظاهر الحديث، فإن السياق وقوة الكلام يدل على أنه غر العليل، وأوهمه أنه طبيب، وليس كذلك، وإن ظن المريض أنه طبيب، وأذن له في طبه لأجل معرفته، ضمن الطبيب ما جنت يده، وكذلك إن وصف له دواء يستعمله، والعليل يظن أنه وصفه لمعرفته وحذقه فتلف به، ضمنه، والحديث ظاهر فيه أو صريح."

(أقسام الأطباء من جهة إتلاف الأعضاء، ‌‌الثاني مطبب جاهل باشرت يده من يطبه فتلف به، ج:4،ص: 129، ط:مؤسسة الرسالة۔ بيروت)

احكام القرآن لعلامہ ظفر احمد عثمانی میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالى أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيهًا على أن طاعتهم واجبة ماداموا على العمل."

(طاعة الأمير فيما لا يخالف الشرع، النساء،2/291، ط: ادارة القرآن)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406100216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں