بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کا ذخیرہ کیا ہوا مال کم قیمت پر فروخت کرنا اور اس مال کو خریدنا


سوال

 حکومت لوگوں کے  گوداموں میں اسٹور چینی نیلام کرتی ہے جو لوگوں نے اس نیت سے اسٹور کر رکھی تھی کہ ان کی قیمت بڑھے گی تو بیچیں گے،  لیکن حکومت نے چھاپہ مارکر چینی برآمد کی، اب حکومت یہ چینی جس کی قیمت فی الحال مارکیٹ میں 8000 روپیہ چل رہی ہے،  حکومت 7000 قیمت میں اعلان کرکے فروخت کرتی ہے،  اور رقم اصل مالکان کو واپس کرتی ہے،  جب کہ اصل مالکان اس قیمت پر راضی نہیں ہیں، اب حکومت کے اس نیلام شدہ چینی کو خریدنا کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ چینی یا اس جیسی دوسری غذائی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرنے سے اگر شہر والوں کو نقصان ہوتا ہو تو یہ ذخیرہ کرنا شرعاً ناجائز ہے  بشرطیکہ ان اشیاء کی خریداری ایسےمقامات سے کی گئی ہو جن کی پیداوار اس شہر میں آتی ہے، ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر روایات میں لعنت وارد ہوئی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں چینی کو ذخیرہ کرنے میں اگر مذکورہ شرائط پائی جاتی تھیں تو ذخیرہ کرنے والوں کا فعل ناجائز تھا۔

باقی ذخیرہ اندوزی کرنے والے حکومت کی تنبیہ کے باوجود اگر اپنے مال کو فروخت کرنے سے گریز کریں تو حکومت جبراً ان کا ذخیرہ کیا ہوا مال فروخت کر سکتی ہے ،اگر حکومت اپنی جاری کردہ ریٹ لسٹ کے مطابق قیمت پر اس مال کو فروخت کرتی ہے تو حکومت کا یہ فعل درست ہے اور حکومت سے خریدنا بھی جائز ہےاگر چہ مارکیٹ کی موجودہ قیمت اس سے زائد ہو کیوں کہ مارکیٹ کے موجودہ قیمت بھی عموماً ذخیرہ اندوزی کی وجہ اس حد تک پہنچتی ہے۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(و) يجب أن (يأمره القاضي ببيع ما فضل عن قوته وقوت أهله فإن لم يبع) بل خالف أمر القاضي (عزره) بما يراه رادعا له (وباع) القاضي (عليه) طعامه (وفاقا) على الصحيح وفي السراج لو خاف الإمام على أهل بلد الهلاك أخذ الطعام من المحتكرين وفرق عليهم فإذا وجدوا سعة ردوا مثله وهذا ليس بحجر بل للضرورة ومن اضطر لمال غيره وخاف الهلاك تناوله بلا رضاه ونقله الزيلعي عن الاختيار وأقره".

وفي الرد:

"(قوله يأمر القاضي ببيع ما فضل إلخ) أي إلى زمن يعتبر فيه السعة كما في الهداية والتبيين شرنبلالية وينهاه عن الاحتكار ويعظه ويزجره عنه زيلعي (قوله فإن لم يبع إلخ) قال الزيلعي فإن رفع إليه ثانيا فعل به كذلك وهدده فإن رفع إليه ثالثا حبسه وعزره، ومثله في القهستاني وكذا في الكفاية عن الجامع الصغير فتنبه.

(قوله وباع القاضي عليه طعامه) أي إذا امتنع باعه جبرا عليه قال في الهداية: وهل يبيع القاضي على المحتكر طعامه من غير رضاه قيل: هو على اختلاف عرف في بيع مال المديون، وقيل: يبيع بالاتفاق لأن أبا حنيفة يرى الحجر لدفع ضرر عام وهذا كذلك اهـ (قوله على الصحيح) كذا نقله القهستاني ومثله في المنح".

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/ 399، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں