بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

حکومت کا غیر قانونی مال ضبط کرنا کیسا ہے؟


سوال

دبئی میں مختلف لوگ وئیر ہاؤس میں مال جمع کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے اپنے مال کو  پاکستان بھیجیں، مثلا  دس لوگوں نے مختلف سامان اس کے ذریعے پاکستان بھیجا،لیکن اس میں کسی ایک شخص کے سامان میں غیر قانونی چیز تھی،جس کی وجہ سے سارے کنٹینر پر جرمانہ عائد ہوا،اب سوال یہ ہے کہ یہ جرمانہ کس کے ذمہ لازم ہوگا؟اور جرمانہ نہ بھرنے کی صورت میں اگر حکومت کنٹینر ضبط کرے تو کیا حکومت سےخریدنا اوراسے آگے فروخت کرنا درست ہے یا نہیں؟

وضاحت:وئیر ہاؤس والے جانچ پڑتال کے بغیر ہی مال جمع کر کے آگے بھیجتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ حکومت  مختلف وجوہات اور قانونی خلاف ورزیوں کی بنا پر  جو  کنٹینرز  ضبط کرتی ہے  اور اسے جرمانہ کے طور پر اپنی تحویل میں لیتی ہے، یہ شرعًا  جائز نہیں ہے،ایسے مال کو اپنے مالکوں کی طرف لوٹانا ضروری ہے،اس لیے کہ یہ  مالی جرمانہ ہے، اور مالی جرمانہ  لاگو کرنا شرعاً صحیح نہیں ہے، البتہ حکومت جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو دوسری سزا دے سکتی ہے،اس کے باوجود بھی اگر  حکومت مالی جرمانہ لینے پر بہ ضد ہو تو  اپنی مال کی حفاظت کے لیے حکومت کو مال دینے والے پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ لینے والا بہرحال گناہ گار ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں جب حکومت جرمانہ لینے پر  بہ ضد ہےتو اپنی اور دیگر لوگوں کی مال کی حفاظت کے لیے خلافِ قانون کام کرنے والے شخص پر جرمانہ عائد ہوگا ،دیگر لوگوں کو اس کے ضمان میں شریک ٹھہرانا درست نہیں ہے،ہاں اگر باقی لوگ اپنی رضامندی سے کچھ امداد کرنا چاہیں تواس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

نیز    حکومت اگر  ایسا مال فروخت یا نیلام  کرے تو معلوم ہونے کی صورت میں ایسا مال خریدنا اور بولی میں حصہ لینا  جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ملکِ غیر ہونے کی وجہ سے اس کا  خریدنا اور استعمال کرنا حرام ہے۔

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال امرئ مسلم إلا ‌بطيب ‌نفس منه“."

"ابوحرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ” کسی مسلمان کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔ “"

(كتاب الغصب، باب من غصب لوحا، 166/6، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا بأخذ مال في المذهب) بحروفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.ه۔۔۔
إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزيز، مطلب في التعزير بأخذ المال، 61/4، ط:سعید)

وفيه ايضا:

"الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب."

(كتاب القضاء، 362/5، ط:سعید)

وفيه ايضا:

"‌الغرم بالغنم۔۔۔أي أن من ينال نفع شيء يجب أن يتحمل ضرره."

(مقدمة كتاب ،المقالة الثانية، المادة:87،  90/1، ط:دار الجیل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144607100745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں