میں جسں ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں کی انتظامیہ نے ملازمین کی آسانی کے لیے حکو مت کی طرف سے مقررہ وقت میں ردوبدل کر رکھا ہے، مزید یہ بھی کےہمارےآنے کا وقت بھی اصل نہیں لکھا جاتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو اسے اصل وقت نہ بتایا جائے کیا اس صورت میں ملازمین گناہ گار ہوں گے؟
مذکورہ ادارے میں جب حکومت کی طرف سے ڈیوٹی کے اوقات مقرر ہیں تو انتظامیہ کے لیے حکومت کی اجازت کے بغیر مقررہ وقت میں رد وبدل کرناجائز نہیں ،بلکہ ملازم پر اپنی جائے ملازمت میں مقررہ وقت کے مطابق مکمل وقت میں حاضر رہنا ضروری ہے، اور غیرحاضری کے اوقات کی تنخواہ لینا جائز نہیں، اسے حکومتی فنڈ میں جمع کروانا ضروری ہوگا۔
انتظامیہ کا حکومت کے مقررہ اوقات میں رد بدل کرنا،اور اصل وقت نوٹ نہ کرنا خیانت اور دھوکہ دہی کی وجہ سے ناجائز ہے،اس کا گناہ انتظامیہ پر ہو گا،ملازمین کے لیے بہر صورت ڈیوٹی کے اوقات کی پابندی لازمی ہے ،نیزملازم کے وقتِ مقررہ سے پہلے چلے جانےیا تاخیر سے آنے کی صورت میں اصل وقت نہ بتانا جھوٹ اور غلط بیانی ہے، ملازم و انتظامیہ کسی کے لیے اس کی گنجائش نہیں،ہاں اگر حکومت کی طرف سے مقررہ اوقات میں تبدیلی کی اجازت مل جائے تو انتظامیہ کے لیےمقررہ اوقات میں رد وبدل کرنا جائزہوگا۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے :
"أن الأجير الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."
(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد ج:9،ص:140، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي بمصر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا وتحقيقه في الدرر وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا..... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
(كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،6/ 69،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408102511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن