بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی طرف سے دیے جانے والے قرض سے فائدہ اٹھانا


سوال

 حکومت پاکستان کی طرف سے کم آمدن والےطبقات کےلئے کم قیمت ہاؤسنگ سکیم"میرا پاکستان میرا گھر "کے نام سےاعلان کیا گیا ہے جس کےتحت گھر کی خریداری اورتعمیر کے لیےانتہائی کم منافع پر قرضےدیے جا رہےہیں۔اس سکیم کی خصوصیات درج ذیل ہیں : شرح منافع قرضے کی حد درجہ بندی 5% پہلے 5سال 2.7ملین پاکستانی روپے درجہ اول 7% اگلے5سال 5% پہلے 5سال 6.0ملین پاکستانی روپے درجہ دوم 7% اگلے5سال 7% پہلے 5سال 10ملین پاکستانی روپے درجہ سوم 9% اگلے5سال تفصیل منسلک ہے،  مفتی صاحب اپنا گھر نہ ہونے کا احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ہے،  حکومت کی ا علان کردہ اسکیم اپنے گھر کی امید کی ایک کرن ہے۔

براہ کرم درج ذیل سوالات پر رہنمائی فرمادیں :

(1)کیا اس اسکیم کے تحت گھر کی خریداری اور تعمیر کےلیے کنونشنل بینکوں سے رعایتی قرضہ لینا جائز ہے؟

(2)حکومت کی طرف سے مذکورہ بالاا سکیم کے تحت دیا جانے والا رعایتی قرضہ سود کے حکم میں داخل ہے یا نہیں ؟

(3)اگر مذکورہ بالا رعایتی قرضہ سود کے حکم میں ہے تو اس کا گناہ قرضہ لینے والے پر ہوگا یا دینے والے پر یا دونوں پرہوگا؟

جواب

1. حکومت کی طرف سے مذکورہ اسکیم کے تحت جو قرض فراہم کیا جاتا ہے، یہ ایک سودی قرضہ ہے، اس لیے اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرض وصول کرنا جائز  نہیں ہے۔

2.  اس اسکیم کے تحت قرض کی مد میں حکومت کی طرف سے جو رقم ادا کی جاتی ہے، قرض لوٹاتے وقت قرض وصول کرنے والے کو  اس رقم سے زائد ادا کرنا پڑتی ہے اور  اسی کو سود کہا جاتا ہے۔ نیز اس کا گناہ  لینے  اور دینے والے دونوں پر ہو گا۔  آپ ﷺ نے سود لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

 حدیث شریف میں ہے:

’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطنی)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں