بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تھی؟


سوال

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو طلاق دی تھی، اگر دی تھی تو کیا وجہ تھی؟

جواب

ایک روایت کے مطابق  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت  حفصہ رضی اللہ عنہا کو ایک راز پوشیدہ رکھنے کا فرمایاتھا، مگر وہ پوشیدہ نہ رکھ سکیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے وہ راز ظاہرکردیا، اس پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا  کو طلاق دے دی تھی، پھر حضرت جبریل علیہ السلام کے مشورے سے اس سے رجوع کر لیا تھا، جب کہ حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو طلاق نہ دینے کا مشورہ دیا کہ وہ  روزہ دار، نماز کی پابند اور بے حد عبادت گزار ہیں اور جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویوں میں  سے ایک ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے کا ارادہ ترک کردیا اور طلاق نہیں دی، یہی مشہور روایت ہے۔

التفسیر البسیط میں ہے:

"روى قتادة عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌طلق ‌حفصة فأتت أهلها، فأنزل الله هذه الآية. وقيل له راجعها فإنها صوامة قوامة.

وعلى هذا إنما نزلت بسبب خروجها إلى أهلها لما طلقها النبي صلى الله عليه وسلم فأنزل الله في هذه الآية: {لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ}، ونحو هذا ذكر الكلبي في سبب نزول هذه الآية، قال: غضب رسول الله صلى الله عليه وسلم على حفصة لما أسر إليها حديثًا فأظهرته لعائشة، فطلقها تطليقة، فنزلت هذه الآية."

(سورة الطلاق، ج: 21 ص: 493 ط: عمادة البحث العلمي)

الآحاد والمثانی لابن أبی عاصم میں ہے:

"حدثنا الجارودي، نا أبي، نا الحسن بن أبي جعفر، عن عاصم، عن زر، عن عمار بن ياسر، رضي الله عنه قال: أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يطلق حفصة فجاء جبريل عليه السلام فقال: لا تطلقها فإنها صوامة قوامة وإنها زوجتك في الآخرة."

(ج: 5 ص: 409 رقم: 3052 ط: دار الرایة)

التيسير فی التفسیر میں ہے:

"وقال مقاتل بن حيان: هم بطلاقها، فقال جبريل عليه السلام: لا تطلقها؛ فإنها صوامة قوامة، فترك ذلك."

(سورة التحريم، ج: 14 ص: 485 ط: دار اللباب للدراسات وتحقيق التراث)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511101454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں