بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حجرے میں جماعت سے نماز پڑھنا


سوال

میرے علاقے میں ایک مسجد ہے ،اس مسجد  سے تقریبا 1200 فٹ کے فاصلے پر ایک تبلیغی دوست حجر ے میں امامت کرتا ہے ،اور اہل ،علاقے سے یہ بات کہتا  ہے کہ اس جگہ پر نماز کی فضیلت بھی زیادہ ہے ،نہ ہی اس محلے کو دشمن سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی بیماری ہے ،مقتدی میں کبھی کبھی حافظ کھڑ ے ہو جاتے ہیں ،انہوں نے کئی بار اعتراض بھی کیا ہے کہ امام کا تلفظ ٹھیک نہیں ہے ،اور امام صاحب  اللہ اکبر کی جگہ اللہ اکبرس کہتاہے ،کیایہ ٹھیک ہے ؟

جواب

 کسی جگہ پر باقاعدہ مسجد بنائے بغیر صرف  نماز پڑھنے یا نماز پڑھنے کی اجازت دینے سے وہ جگہ مسجد  کے حکم  میں نہیں ہو جاتی ،لہذاحجرے میں جماعت سے نماز ادا کرنے سے جماعت کا ثواب تو ملے گا ،مگر مسجد کا ثواب نہیں ملے گا ۔

دوسرے مسئلے کےلیے امام کی تلاوت کسی قریبی دار الافتاء میں سنا کران سے مسئلہ معلوم کریں۔

مشکوۃ شریف میں ہے :

"وَعنِ ِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ فَلَمْ یَمْنَعْه مِن اتِّبَاعِه عُذْرٌ، قَالُوْا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضَ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه الصَّلاة الَّتِي صَلَّی". (رواه أبوداؤد والدارقطني)".

(كتاب الصلاة باب الجماعة وفضلها ،الفصل الثاني ،١/٣٣٥،ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ :" حضرت عبداللہ بن عباس راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو آدمی اذان کہنے والے (یعنی مؤذن) کی اذان سنے اور مؤذن کی تابعداری (یعنی مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہونے) سے اسے کوئی عذر نہ روکے، لوگوں نے پوچھا کہ عذر کیا ہے؟ فرمایا کہ : (دشمن سے) ڈرنا یا بیماری، تو اس کی نماز جو بغیر جماعت (اگرچہ مسجد ہی میں پڑھے) قبول نہیں کی جاتی "۔

یہ روایات اور اس طرح کی دیگر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مردوں کے لیے بلاشرعی عذر کے مسجد کو چھوڑ کر گھر میں نماز اداکرنا درست نہیں ، ایسے افراد احادیث میں مذکور شدید وعید میں شامل ہیں۔

لہذا مردوں کے لیے حالتِ صحت وتندرستی  اور عام حالات میں مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے ۔

 اعلاء السنن میں ہے :

"قلت دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ..."

(أبواب الإمامة،باب وجوب إتيان الجمارعة في المسجد عند عدم العلة ،٤/١٨٦،ط ،إدارة القرآن كراتشي)

عمدۃ القاری شرح  صحیح  البخاری میں ہے:

"قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم"

قوله - صلى الله عليه وسلم -: "وذلك أنه إذا توضأ فأحسن الوضوء" تقدم معنى إحسان الوضوء في صفة الوضوء.

قوله - صلى الله عليه وسلم -: "ثم خرج إلى المسجد لا يخرجه إلا الصلاة" المسجد مشتمل على الشرف وإظهار الشعار وكثرة الجماعة فإن كان إذا صلى في بيته صلى جماعة وإذا صلى في المسجد صلى منفردا فصلاته في بيته أفضل ولو كانت جماعة بيته أكثر من جماعة المسجد فقال الماوردي المسجد أفضل وقال القاضي أبو الطيب بيته أولى والله أعلم.

وهذا الحديث يفهم منه أن ‌فضل ‌المسجد لأجل الجماعة فقط بل لما يلازمها من الأحوال كفضل الجماعة ونقل الخطوات إليه وصلاة الملائكة عليه وغير ذلك"

‌‌(باب فضل صلاة العشاء في الجماعة،٥/١٧٤،ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں