جب پانچ دن میں حج کے فرائض ادا ہو سکتےہیں تو لوگ چالیس چالیس دن کیلے کیوں ویزہ لے کر جاتے ہیں؟
واضح رہے کہ حج کا مبارک سفر کرنے والے حسبِ سہولت مختلف دنوں کا پیکیج لےکر حرمین کا سفر کرتے ہیں ، حج کے مخصوص دنوں میں حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور بقیہ دنوں میں حرمین شریفین کے انوار و برکات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ جس چیز اور جگہ سے انسان کو محبت والفت ہوتی ہے اس کو چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا، بہر حال عام طور سے چالیس دن کاویزہ اس لیے ہوتا ہے کہ حاجی کثرت سے بیت اللہ کا طواف اور عمرے کرسکے، بیت اللہ کا دیدار کرسکے، خوب اللہ کو یاد کرسکے ، روضۂ ِ مبارک پر حاضر ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھ سکے اور مقدس مقامات کی زیارت کرسکے، اور ان سب چیزوں کے لیے چالیس دن کی مدت بھی کم ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تابعوا بين الحج والعمرة فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة وليس للحجة المبرورة ثواب إلا الجنة» . رواه الترمذي والنسائي."
(کتاب المناسک، الفصل الثانی، ج:2، ص:775، ط:المكتب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411102608
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن