بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لزوم کے لیے زادِ راہ کا ہونا اور دیگر اَعذار کا نہ ہونا


سوال

ایک صاحب نے حج پرجانے کے لیےرقم جمع کروائی، مگر کرونا کی    وباء کی وجہ سے اس وقت پابندیاں لگیں ،جس کی وجہ سے وہ  حج کے لیے نہ جاسکا ،اب اس کے پاس اتنی رقم نہیں جس سے وہ حج کا فریضہ ادا کرسکے ،تو کیا اب اس  صاحب  پر حج فرض ہے ؟

جواب

 شرائط (وجوب اداء)یعنی حج کے فرض ہو جانے کے  وہ شرائط جن کے پائے جانے کی  وجہ سے حج کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے، حج  پر جانے سے کسی ظاہری رکاوٹ کا نہ ہونا، راستہ کا پُر امن ہونا ضروری ہے، سوال میں مذکور  صاحب نے رقم  جمع  کر وائی تھی، لیکن    کرونا کے وباء کے سبب حکومتی پابندی کی  وجہ سے نہ جا سکا،تو  (نفس وجوب)  یعنی اس پر حج فرض ہو چکا ہے،لیکن (وجوب اداء )یعنی  حج اداکرنے میں رکاوٹ آگئی، لہذا اس صاحب  پر حج لازم ہے جب  رکاوٹ ختم ہو جائےتو حج ہر جانا لازم ہوگا۔

دوسری بات کہ اس نے رقم جمع کروائی تھی لیکن رکاوٹ  کے سبب نہ جا  سکا  اب وہ  رقم  اتنی نہیں ہے کہ جس سے حج پر جا سکے، لہذا  اس صاحب پر (نفس وجوب ) یعنی حج  فرض ہو چکا  ہے،لیکن اگر  وہ رقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ ہو گئی ہےیا حج مہنگا ہونے کی وجہ سے اب اس رقم سے حج نہیں کیا جا سکتا، تو اس آدمی پر حج بدستور فرض ہے،  حج کا ذمہ ساقط نہیں ہوگا، بلکہ حج کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی رہے گی،اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب بن جائیں تو حج ادا کرلے،  ورنہ حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگااور اگر زندگی میں نہ کر سکے  تو پھر اگر اس کے ترکہ میں مال ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اگر ایک  تہائی ترکہ میں اتنی رقم  ہو کہ اپنے شہر سے بندہ حج بدل کے لیے جا سکتا ہو، تو پھر وہیں سے بھیجا جائے، اور اگر اتنی رقم ایک تہائی ترکہ میں نہ بنتی ہو  تو جس شہر سے حج بدل کرایا اجا  سکتا ہو ،  وہاں سے بھیجا جائے۔اور اگر ترکہ میں مال بالکل نہ ہو  تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

غنیۃ الناسک میں ہے :

" الأول  الصحة، و ھی سلامة البدن عن الآفات المانعة عن القیام بما لابد منه فی سفر الحج، هذا عندھما، أما ظاھر المذھب عند ابی حنیفة رضی اللہ عنه  فھی  شرط الوجوب فلا یجب الحج علی المقعد والزمن و المفلوج و إن ملکوا ما به الإستطاعة فلیس علیھم الإحجاج أو الإیصاء و عندھما یجب الحج  علیھم  إذا ملکوا  ما به الزاد و الراحلة ومؤنة من یرفعھم ویضعھم و یقودھم إلی المناسك، لکن لیس علیھم الأداء بأنفسھم فعلیھم الإحجاج أو الإیصاء به عند الموت، وصححه قاضی خان، واختارہ کثیر من المشائخ............و الخلاف فیمن ملک مابه الأستطاعة وھو معذور حتی مات، فان ملکه وھو صحیح، فلم یحج من عامه حتی زالت الصحة  فأنه یتقرر  دینا  فی ذمته بالاتفاق، فیجب علیه الإحجاج أو الإیصاء به عند الموت .......  الثانی عدم الحبس و المنع والخوف من السطان الذی یمنع الناس من الخروج إلی الحج، الخلاف فیه الخلاف فی الصحۃ البدن، فالمحبوس الخائف من السلطان کالمریض لا یجب علیھما اداء الحج بانفسھما، و لکن یجب علیھما الإحجاج او الإیصاء به عند الموت عندھما.

( كتاب غنیة الناسك، باب شرائط الحج، فصل: أما شرائط الوجوب و وجوب الأداء، ص:44،45،46 ط: إدارۃ القرآن و العلوم الإسلامیة) 

شامی میں ہے:

(قوله صحيح البدن) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر، فلا يجب على مقعد ومفلوج وشيخ كبير لا يثبت على الراحلة بنفسه وأعمى، وإن وجد قائدا، ومحبوس، وخائف من سلطان لا بأنفسهم، ولا بالنيابة في ظاهر المذهب عن الإمام وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما وجوب الإحجاج عليهم، ويجزيهم إن دام العجز وإن زال أعادوا بأنفسهم.

والحاصل: أنه من شرائط الوجوب عنده ومن شرائط وجوب الأداء عند هما .......(قوله غير محبوس) هذا من شروط الأداء كما مر والظاهر أنه لو كان حبسه لمنعه حقا قادرا على أدائه لا يسقط عنه وجوب الأداء.[تنبيه] ذكر في شرح اللباب عن شمس الإسلام أن السلطان ومن بمعناه من الأمراء ملحق بالمحبوس فيجب الحج في ماله الخالي عن حقوق العباد وتمامه فيه ولا يخفى أن هذا إن دام عجزه إلى الموت وإلا فيجب عليه الحج بنفسه بعد زوال عذره وهو مقيد أيضا بما إذا كان قادرا على الحج ثم عجز وإلا فلا يلزمه الإحجاج على الخلاف المذكور آنفا .     

(فتاوی شامي، کتاب الحج، مطلب فیمن حج بمال حرام، ج:2 ص:459  ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"والثانية خمسة على الأصح: صحة البدن، وزوال الموانع الحسية عن الذهاب إلى الحج، وأمن الطريق، وعدم قيام العدة في حق المرأة، وخروج الزوج أو المحرم معها."

(البحر الرائق،کتاب الحج، فصل فی واجبات الحج ج:2 ص:538،539 ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و فضلا عن نفقة عياله ممن تلزمه نفقته لتقدم حق العبد(إلی) حین(عودہ) وقیل بعدہ بیوم وقیل بشھر."

  ( كتاب الحج، ج 2، ص:462،463 ط: سعيد)

زبدۃ الناسک مع عمدۃ الناسک میں ہے:

دوسری قسم حج کے واجب ادا ہونے کے شرائط:

وجوبِ ادائے حج کے شرائط اُن کو کہتے ہیں ،کہ حج کا واجب ہونا تو اس پر موقوف نہ ہو۔ لیکن فقط حج کا ادا کرنا ان پر موقوف ہو، پس اگر کسی شخص پر اس قسم کے شرائط باوجود پہلی قسم کے پائے جائیں گے، تو اُس کے اپنے نفس پر  حج  کا ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے ،اور اگر اس قسم کی کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی باوجود اس کے کہ پہلی قسم کی اگر سب شرطیں پائی جائیں، تو اس کے اپنے نفس پر حج  کا ادا کرنا واجب نہ ہوگا، بلکہ اس پر ان باتوں میں سے ایک لازم ہوگی وہ یا تو اپنے لیے نائب بھیج کر حج کرائے ،یہی افضل ہے ، یا مرنے کے قریب اپنے مال سے حج  کرانے کی وصیت کر دے اور یہ واجبِ ادا ءہونے کے پانچ شرائط ہیں ۔ (حیات)

پہلی شرط راستہ کا  امن ہونا ہے: یعنی اپنی جان و مال کا چوروں اور لٹیروں اور مارنے والوں اورد شمنوں   کے ظلم اور دریا میں غرق ہونے وغیرہ سے امن ہونا، اور امن کے لیے امر غالب معتبر ہے ، اگر چہ راستہ خشکی کا ہو یا دریا کا ، پس اگر ان میں امن غالب ہو توحج کر نا اپنے نفس پر لازم ہے ، اگر قتل و ہلاکت کا خوف غالب ہو، تو حج پر جانا واجب نہ ہوگا۔ بموجب صحیح قول کے اسی پر فتو نے ہے اور غلیہ میں کہا ہے و علیہ الاعتماد ، اور ملا علی قاری نے کہا ہے کہ اس کی مراد یہ ہے کہ اُس کے اپنے نفس پر حج ادا کرنا واجب نہیں ہے۔

(زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک ،  حج کے واجب ادااء ہونے کے شرائط  ،ص:29،   ط:سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں