بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدود حرم کا مقیم کون سا حج کر سکتا ہے؟


سوال

ہم پاکستان سے سعودیہ عرب میں کام کرنے آئےہوئے ہیں اور ڈیڑھ سال ہوگیا ہے اور ہمیں  حج کرنا ہے، تو ہم حج کی کون سی قسم اداکریں گے؟ اور اس کے احکام کیا ہیں؟ ہماری رہائش مکہ میں حدود حرم کے اندر ہے۔  تفصیل سے وضاحت فرمادیں۔

جواب

1۔ مکی یعنی  حدودِ  حرم کے رہائشی اور جو لوگ اہل مکہ کے حکم میں ہیں، یعنی عین میقات یا میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے حج تمتع اور قران منع ہے، وہ صرف حج افراد کرسکتے ہیں، البتہ اگر ان لوگوں نے حج تمتع یا حج قران میں سے کوئی حج کرلیا تو حج کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گا، تاہم ایسے شخص پر ایک دم لازم ہوگا۔

2۔  حج افراد کرنے والا احرام باندھتے ہوئے صرف حج کی نیت کرے گا، نیز حج افراد کرنے والا  شخص جو پہلے سے حدود حرم میں رہائش پذیر ہو وہ آٹھ ذو الحجہ کی صبح  منیٰ جانے سے پہلے پہلے تک  احرام کی نیت کر سکتا ہے، البتہ آٹھ  ذو الحجہ سے پہلے احرام باندھ لینا افضل ہے۔

پس اگر وہ  حدودِ حرم کے باہر سے آیا ہو تو وہ سب سے پہلے طواف قدوم کرے گا، اور اگر حدود حرم میں ہی پہلے سے رہائش پذیر ہو تو اس پر طواف قدوم نہیں ہے۔

آٹھ ذو الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد منی جائے گا، وہاں نو ذو الحجہ کی صبح تک رہے گا،نو ذو الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد عرفات جائے گا، امام حج کی اقتدا میں ظہر و عصر کی نماز ادا کرنے کی صورت میں ظہر و عصر کو ظہر کے وقت میں ایک ساتھ ادا کرے گا، اور مذکورہ نمازیں انفرادی طور پر یا اپنے خیمہ میں ادا کرنے کی صورت میں دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ادا کرے گا، اور غروبِ آفتاب تک وہاں ٹھہرے گا، غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوگا، مزدلفہ پہنچ کر مغرب و  عشاء کی نماز  ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ادا کرے گا،  رات مزدلفہ میں قیام کرے گا اور فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد مختصر قیام کرکے  منیٰ کے لیے روانہ ہوگا، منیٰ پہنچ کر بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارے گا، اور اس کے بعد حلق کرا کر احرام سے نکل جائے گا، (تاہم طوافِ زیارت سے پہلے بیوی اس پر حلال نہ ہوگی)۔

 طوافِ زیارت اگر ممکن ہو تو اسی دن کرلے، اور اگر ممکن نہ ہو تو  بارہ ذو الحجہ کی مغرب سے پہلے پہلے تک کسی بھی وقت کر سکتا ہے، نیز طواف زیارت کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کرے۔ اس کے بعد واپس منیٰ آجائے یا اپنی رہائش پر جانا چاہے تو جا سکتا ہے، تاہم رات منیٰ میں گزارے کہ یہ مسنون ہے۔

اگلے دن گیارہ ذو الحجہ اور اس سے اگلے دن بارہ ذو الحجہ کو زوال کے بعد  تینوں شیطانوں کی رمی کرے۔ زوال سے پہلے رمی کرنا درست نہیں ہے۔

گیارہ ذوالحجہ کی رات بھی منیٰ میں گزارنا مسنون ہے۔ بارہ ذو الحجہ کی رمی سے فارغ ہونے کے بعد  اگر وہ حدود حرم سے باہر کا رہائش پذیر ہے تو اس کو اپنے وطن واپسی سے پہلے طواف وداع کرنا واجب ہے، اور اگر حدود حرم کا ہی رہائشی ہے تو بارہ ذو الحجہ کی رمی کے بعد اس کا حج مکمل ہو جائے گا۔ (غنیۃ الناسک :216،ط:ادارۃ القرآن)

التجريد للقدوري میں ہے:

"ليس لأهل مكة وأهل المواقيت تمتع ولا قران

7743 - قال أصحابنا: ليس لأهل مكة، ومن بينها وبين مكة في المواقيت تمتع ولا قران.

7744 - وقال الشافعي: لهم ذلك؛ لأنه لا دم عليه.

7745 - لنا: قوله تعالى: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج} إلى قوله: {ذلك لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام}."

( كتاب الحج، 4 / 1732 ، ط: دار السلام)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَالْمَكِّيُّ وَمَنْ فِي حُكْمِهِ يُفْرِدُ فَقَطْ) وَلَوْ قَرَنَ أَوْ تَمَتَّعَ جَازَ وَأَسَاءَ، وَعَلَيْهِ دَمُ جَبْرٍ".

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ: يُفْرِدُ فَقَطْ) هَذَا مَا دَامَ مُقِيمًا، فَإِذَا خَرَجَ إلَى الْكُوفَةِ وَقَرَنَ صَحَّ بِلَا كَرَاهَةٍ لِأَنَّ عُمْرَتَهُ وَحَجَّتَهُ مِيقَاتَانِ فَصَارَ بِمَنْزِلَةِالْآفَاقِيِّ. قَالَ الْمَحْبُوبِيُّ: هَذَا إذَا خَرَجَ إلَى الْكُوفَةِ قَبْلَ أَشْهُرِ الْحَجِّ. وَأَمَّا إذَا خَرَجَ بَعْدَهَا فَقَدْ مُنِعَ مِنْ الْقِرَانِ فَلَا يَتَغَيَّرُ بِخُرُوجِهِ مِنْ الْمِيقَاتِ كَذَا فِي الْعِنَايَةِ. وَقَوْلُ الْمَحْبُوبِيِّ هُوَ الصَّحِيحُ، نَقَلَهُ الشَّيْخُ الشِّبْلِيُّ عَنْ الْكَرْمَانِيِّ شُرُنْبُلَالِيَّةٌ، وَإِنَّمَا قُيِّدَ بِالْقِرَانِ لِأَنَّهُ لَوْ اعْتَمَرَ هَذَا الْمَكِّيُّ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ عَامِهِ لَا يَكُونُ مُتَمَتِّعًا لِأَنَّهُ مُلِمٌّ بِأَهْلِهِ بَيْنَ النُّسُكَيْنِ حَلَالًا إنْ لَمْ يَسُقْ الْهَدْيَ، وَكَذَا إنْ سَاقَ الْهَدْيَ لَا يَكُونُ مُتَمَتِّعًا، بِخِلَافِ الْآفَاقِيِّ إذَا سَاقَ الْهَدْيَ ثُمَّ أَلَمَّ بِأَهْلِهِ مُحْرِمًا كَانَ مُتَمَتِّعًا لِأَنَّ الْعَوْدَ مُسْتَحَقٌّ عَلَيْهِ فَيَمْنَعُ صِحَّةَ إلْمَامِهِ. وَأَمَّا الْمَكِّيُّ فَالْعَوْدُ غَيْرُ مُسْتَحَقٍّ عَلَيْهِ وَإِنْ سَاقَ الْهَدْيَ فَكَانَ إلْمَامُهُ صَحِيحًا، فَلِذَا لَمْ يَكُنْ مُتَمَتِّعًا كَذَا فِي النِّهَايَةِ عَنْ الْمَبْسُوطِ (قَوْلُهُ وَلَوْ قَرَنَ أَوْ تَمَتَّعَ جَازَ وَأَسَاءَ إلَخْ) أَيْ صَحَّ مَعَ الْكَرَاهَةِ لِلنَّهْيِ عَنْهُ، وَهَذَا مَا مُشِيَ عَلَيْهِ فِي التُّحْفَةِ وَغَايَةِ الْبَيَانِ وَالْعِنَايَةِ وَالسِّرَاجِ وَشَرْحِ الْإِسْبِيجَابِيِّ عَلَى مُخْتَصَرِ الطَّحَاوِيِّ".

( شامي، كتاب الحج، باب المتمتع، 2 / 539 ، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں