بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حدودمسجدمیں سائرن بجانا


سوال

مسجد کی حدود میں رکھے ہوئے ساؤنڈ سسٹم سے سحری و افطار ی کے اوقات میں سائرن بجانے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

مسجد کی حدود میں یاحدودمسجدسےباہر رکھے ہوئے ساؤنڈسسٹم سے سحری وافطاری کے اوقات میں ایسا سائرن بجانا جس میں میوزک  ہوقطعاجائزنہیں،البتہ سادہ سائرن کی بقدرضرورت گنجائش ہے،تاہم بہتریہ ہے کہ سائرن کومسجدکی حدودسے باہربجایاجائےتاکہ مسجدکوشوروشغب سےپاک رکھاجاسکےہےاورضرورت بھی پوری ہو۔

المبسوط میں ہے:

"ولا يقام الحد في المسجد، ولا قود، ولا تعزير لما فيه من وهم تلويث المسجد، ولأن المجلود قد يرفع صوته، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رفع الصوت في المسجد بقوله صلى الله عليه وسلم «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم ورفع أصواتكم»، ولكن القاضي يخرج من المسجد إذا أراد إقامة الحد بين يديه".

(کتاب الحدود،باب الاقراربالزنا،ج:9،ص:102/101،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكون ‌بوق ‌الحمام يجوز كضرب النوبة. وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر. وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اهـ.أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لإيقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام تأمل".

(کتاب الحظروالاباحة،ج:6،ص:350،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں