بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’حب الدنیا رٲس کل خطیئۃ‘‘ حدیث کی تحقیق


سوال

میں نے ایک حدیث پڑھا تھا:’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ‘‘  لیکن مجموعۃ الفتاوی میں لکھا ہے:“لیس هو محفوظ عن النبي صلی اللہ علیه وسلم”اور تخریج میں لکھا گیا کہ یہ موضوع ہے۔ قال الألباني “في الضعیفة ”۱۲۲۶: موضوع۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کو حدیث کے طور پر  روایت کرنا کیسا ہے؟ 

جواب

یہ روایت امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ(ت:281ھ) نے "الزہد" میں اور علامہ بیہقی رحمہ اللہ (ت:458ھ) نے ’’شعب الایمان‘‘ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے مرسلا نقل کیا ہے۔

علامہ سیوطی رحمہ اللہ(ت:911ھ) ’’الدرر المنثورة  فی الاحادیث المشہورة‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے’’الموضوعات‘‘ میں شمار کیا ہے، لیکن  شیخ الاسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر ان کا تعاقب کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن المدینی نے حسن کے مرسل روایات جن کی اسانید حسن ہو، ان کی تعریف کی ہے۔

علامہ سخاوی رحمہ اللہ  (ت:902ھ)  فرماتے ہیں کہ:  اس حدیث کو امام ابن تیمیہ  نے  جندب بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے، لیکن   چونکہ یہ حدیث حسن بصری رحمہ اللہ(ت:110ھ) سے سند حسن کے ساتھ مرسل مروی ہے،  اس لیے اس روایت   کو  جندب البجلی رضی اللہ عنہ کا قول کہنا یا موضوع کہنا محل نظر ہے؛ کیونکہ امام علی ابن المدینی رحمہ اللہ(ت:234ھ)  فرماتے ہیں کہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے مرسل روایات جن کو ثقات  نے نقل کیا ہو، وہ صحیح ہے، بہت کم ان میں سے ساقط ہے، اور امام ابو زرعہ رحمہ اللہ (ت:280 ھ)  فرماتے ہیں کہ:  جہاں  جہاں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے  ارسال کرتے ہو قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکہا ہے، چار احادیث کے علاوہ باقی سب کے لیے  میں نے کوئی نہ کوئی اصل پایا ہے  جو کہ  ثابت ہے۔

ملا  علی قاریرحمہ اللہ (ت:1014ھ)  الاسرار المرفوعة  میں لکھتے ہیں کہ: جن لوگوں نے اس روایت پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے انہوں سند کی صراحت نہیں کی ہے، حالانکہ اسانید مختلف  ہیں، اور مرسل روایت  جب ثقات سے مروی ہو تو وہ جمہور  کے نزدیک حجت ہے۔ الحاصل:مذکورہ کبار محدثین کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے ، لہذا  اس کو موضوع کہنا درست نہیں ، نیز اس کو حدیث کے طور پر  بیان کرنا  جائز ہے۔

  اور ابن ابی الدنیا نے "الزہد" میں مالک بن دینار کے قول کے طور بھی نقل کیا ہے۔ اور امام بیہقی نے "الزھد" میں اور ابو نعیم رحمہ اللہ نے نے حلیہ میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے اقوال میں سے لایا ہے، اور ابن یونس نے "تاریخ مصر" میں سعد بن مسعود کے اقوال میں سے نقل کیا ہے۔

اورعلامہ دیلمی نے اسے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے موقوفًا نقل کیا ہے لیکن "مسند" میں اس کی سند کا ذکر نہیں، بلکہ بیاض ہے، یعنی مخرج کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہ روایت سعد ابن مسعود الصدفی الطبی کے مقولے کے طور پر تاریخ ابن عساکر میں منقول ہے۔

"عن الحسن، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب الدنيا رأس كل خطيئة»".

أخرجه ابن أبي الدنيا في الزهد (ص:26) برقم (9)، والبيهقي في شعب الإبمان في باب في الزهد و قصر الأمل (14/ 102) برقم (10019). 

الدر المنثورہ میں ہے:

"حديث: حب الدنيا رأس كل خطيئة البيهقي في "الشعب" من مراسيل الحسن مرفوعا، وابن أبي الدنيا في "مكائد الشيطان" من كلام مالك بن دينار. والبيهقي في "الزهد" من كلام عيسى ابن مريم، وابن يونس يونس في "تاريخ مصر" من كلام سعد بن مسعود.

قلت: قد عد الحديث في الموضوعات، وتعقبه شيخ الإسلام ابن حجر بأن ابن المديني أثنى على مراسيل الحسن والإسناد حسن إليه، وقد أورده الديلمي من حديث علي بن أبي طالب رضي الله عنه، وبيض له في "مسنده" فلم يذكر له إسنادا، وهو في "تاريخ ابن عساك عن سعد بن مسعود الصدفي التابعي بلفظ: حب الدنيا راس كل الخطأ. انتهى".

 (الدرر المنثورة في الأحاديث المشتهرة: حرف الحاء (ص:105)، برقم (185)، ط. عمادة شؤون المكتبات، الرياض، السعودية)

المقاصد الحسنہ میں ہے:

"حب الدنيا رأس كل خطيئة: البيهقي في الحادي والسبعين من الشعب، بإسناد حسن إلى الحسن البصري، رفعه مرسلا، وأورده الديلمي في الفردوس، وتبعه ولده بلا إسناد عن علي رفعه به، وهو عند البيهقي أيضا في الزهد، وأبي نعيم في الترجمة الثوري من الحلية من قول عيسى بن مريم عليه السلام، وعند ابن أبي الدنيا في مكايد الشيطان له، من قول مالك بن دينار، وعند ابن يونس في ترجمة سعد بن مسعود التجيبي من تاريخ مصر له، من قول سعد هذا، وجزم ابن تيمية بأنه من قول جندب البجلي رضي الله عنه. وبالأول يرد عليه وعلى غيره ممن صرح بالحكم عليه بالوضع؛ لقول ابن المديني: مرسلات الحسن إذا رواها عنه الثقات صحاح، ما أقل ما يسقط منها، وقال أبو زرعة: كل شيء يقول الحسن، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجدت له أصلا ثابتا ما خلا أربعة أحاديث. وليته ذكرها، وقال الدارقطني: في مراسيله ضعف، وللديلمي عن أبي هريرة رفعه: أعظم الآفات تصيب أمتي: حبهم الدنيا، وجمعهم الدنانير والدراهم، لا خير في كثير ممن جمعها إلا من سلطه الله على هلكتها في الحق".

(المقاصد الحسنة: حرف الحاء المهملة (ص:296)، ط.دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعةالأولى:1405 هـ =1985م)

 

"حب الدنيا رأس كل خطيئة:قال بعضهم: موضوع، ومنهم ابن تيمية، حيث جزم بأنه من قول جندب البجلي.وقد رواه البيهقي في الشعب بإسناد حسن إلى الحسن البصري رفعه مرسلا.قال السيوطي: وقد عد الحديث في الموضوعات، وتعقبه شيخ الإسلام ابن حجر بأن المديني أثنى على مراسيل الحسن والإسناد حسن إليه. وقد أورده الديلمي من حديث علي بن أبي طالب في مسنده ولم يذكر له إسنادا،  وهو في تاريخ ابن عساكر عن سعد بن مسعود الصدفي التابعي بلفظ: حب الدنيا رأس الخطايا انتهى، وهو عند عند أبي نعيم في ترجمة سفيان الثوري من الحلية من قول عيسى عليه السلام، وعند ابن أبي الدنيا في مكايد الشيطان له من قول مالك بن دينار.

أقول: القائل بأنه موضوع لم يصرح بإسناده، والأسانيد مختلفة، والمرسل حجة عند الجمهور إذا صح إسناده، ولهذا قال ابن المديني: مرسلات الحسن إذا رواها عنه الثقات، صحاح. وقال الدارقطني: في مراسيله ضعف،فالاعتماد على عماد الإسناد."

(الأسرار المرفوعة (ص:188، 189) برقم (188)، ط. المكتب الإسلامي بيروت، الطبعة الثانية:1406هـ =1986م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں