بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہبہ قبل القبض کا حکم اور میراث کی تقسیم


سوال

1)ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں ،ہمار ےوالدین کا انتقال ہوچکا ہے،میرے والد صاحب نے ایک  پلاٹ (جو کہ گودھراگلستان میں ہے)اپنی زندگی میں اپنے معذور بیٹے کوزبانی طور پر گفٹ کردیا تھا ،لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ پلاٹ معذور بھائی کے نام نہیں ہوسکا تھا اور نہ ہی والد صاحب نے اس کو پلاٹ پر کوئی قبضہ دیا تھا،صرف زبانی طور پر گفٹ کیا تھا،ہم تمام بھائی اور بہنیں عاقل وبالغ ہیں اور سب یہ چاہتے ہیں کہ مذکورہ پلاٹ معذور بھائی کے نام کرکے ان کے حوالہ کریں ،تو کیا شرعاً ایسا کرنا درست ہے؟

)والدصاحب نے اپنی زندگی میں اپنا ایک دوسرا پلاٹ بیچ کر اس میں سے کچھ رقم سے اپنا قرضہ ادا کیا ،باقی رقم میں سے ایک لاکھ روپے اپنی ایک بیٹی کو گفٹ کرکے اس کے اکاؤنٹ میں ڈلوائے تاکہ اس کا شوہر اس سے اپنے لیے کاروبار شروع کرے،کچھ رقم والد صاحب کے علاض ومعالجہ پر خرچ ہوگئی،ان سب کے علاوہ والد صاحب کے اکاؤنٹ میں مزید چار لاکھ روپے تھے جو والد صاحب نے اپنی ایک نواسی کو یہ کہہ کر گفٹ کیے تھے کہ اس رقم سے میں اپنی نواسی کی شادی کراؤں گا لیکن والد صاحب نے مذکورہ نواسی کے قبضہ میں یہ رقم نہیں دی تھی  بلکہ وفات تک یہ رقم والد صاحب کے اکاؤنٹ میں تھی اور وفات کے بعد یہ رقم سیل (seal)ہوگئی ،اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ رقم پرکس کس کا حق ہے ؟اور کتنا کتنا ہے ؟شریعت کی روشنی میں جواب  دے کر ممنون فرما ئیں۔ 

جواب

)صورت مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم نے اپنے معذور بیٹے کو" گودھرا گلستان والی پلاٹ"زبانی طور پر گفٹ کی تھی لیکن ان کو پلاٹ پر قبضہ نہیں دیا تھا ،لہٰذا مذکورہ پلاٹ حسبِ سابق سائل کے والد مرحوم کی ملکیت میں برقرار تھااور اب وفات کے بعدان  کے ترکہ میں شامل ہے،اگر واقعۃًمرحوم کے تمام ورثاء عاقل وبالغ ہیں اور وہ سب اپنی خوشی ورضامندی سے یہ پلاٹ اپنے معذور بھائی کو گفٹ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ایسا کرنا شرعاًجائز ہے۔

2)جو رقم والد نے بیٹی کو گفٹ کی  وہ بیٹی کی ہوچکی ہے البتہ جو رقم نواسی کو گفٹ  کی کہ وہ بیٹی رقم  چونکہ مرحوم نے اپنی نواسی کے قبضے میں نہیں دی تھی بلکہ وفات تک مرحوم کے اکاؤنٹ میں تھی ،لہٰذا مذکورہ رقم بھی مرحوم کی ملکیت میں بدستور باقی تھی اور اب وفات کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی  ،جس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو تواس کو باقی کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی تمام جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے 9حصے کرکے اس میں سے مرحوم کے ہر بیٹے کو2،2حصےاور ہر بیٹی کوایک ،ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت۔۔9

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
2211111

یعنی 100روپے میں سے مرحوم کے ہر بیٹے کو22.222222روپے،اور ہر بیٹی کو11.111111روپے ملیں گے۔

ہند یہ میں ہے :

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."

(کتا ب الھبۃ،ج4،ص377،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية."

(کتاب الھبۃ، الباب الأول في تفسير الهبۃ وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها وفيما يكون هبۃ من الألفاظ وما يقوم مقامها وما لا يكون،4/374،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں