بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمین میں رہائش افضل ہے یا وہاں بار بار حاضری


سوال

حرمین شریفین میں مستقل رہائش اختیار کرنا افضل ہے یا اپنے وطن سے وہاں بار بار حاضری دینا؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بے شمارفضائل وارد ہوئے ہیں، جن کے لیے محدثینِ کرام نے مستقل ابواب قائم فرمائے ہیں،لہذا جو آدمی ان مقامات کے تقدس اور آداب کا مکمل خیال رکھ سکتا ہو اس کے لیے ان دونوں مقاماتِ مقدسہ میں  مستقل رہائش اختیارکرنااور وہاں موت کا آجانا،دیگر مقامات میں رہائش کی بہ نسبت افضل اور باعثِ سعادت ہے۔

ترمذی شریف کی روایت میں ہے:

"عن نافع عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت بها؛ فإني أشفع لمن يموت بها".

ترجمہ:"حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  جس سے ہو سکے کہ مدینہ منورہ میں مرے تو وہیں مرنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ جو یہاں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا"۔

(سنن ترمذی، باب فی فضل المدینۃ،ج:5،ص:719،ط:داراحیاء التراث ، العربی  بیروت)

صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے:

"عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صلى الله عليه وسلم".

ترجمہ: "زید بن اسلم اپنے والد سے وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے دعا کی: یا اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما، اور مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت دے"۔

(صحیح بخاری، ج:3،ص؛30،ط:دارالشعب القاہرہ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن رجل من آل الخطاب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من زارني متعمداً كان في جواري يوم القيامة ومن سكن المدينة وصبر على بلائها كنت له شهيداً وشفيعاً يوم القيامة ومن مات في أحد الحرمين بعثه الله من الآمنين يوم القيامة ".

ترجمہ:"اور خطاب کے خاندان کا ایک شخص ناقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا وہ قیامت کے دن میرا ہم سایہ اور میری پناہ میں ہو گا، جس شخص نے مدینہ میں سکونت اختیار کر کے اس کی سختیوں پر صبر کیا قیامت کے دن میں اس کی اطاعت کا گواہ بنوں گا اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لیے شفاعت کروں گا اور جو شخص حرمین (مکہ اور مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا (یعنی یہ قیامت کے دن عذاب کے خوف سے مامون رہے گا)۔

(مشکوۃ المصابیح، باب حرم المدینۃ، ج:2،ص؛122،ط:المکتب الاسلامی بیروت)

مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ جومسلمان ایمان کی حالت میں حرمین میں  ہی مستقل رہائش پذیر ہو اور وہیں  وفات پائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو عذاب سے محفوظ لوگوں کے ساتھ اٹھائیں گے، اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے مدفونین کے لیے  بطورِ خاص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کی دعا فرمائی ہے، اور اپنی شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں