حرام مال کو ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا کیسا ہے؟ تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں ۔
اگرکسی کے پاس کسی بھی طریقے سے حرام مال آگیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو اور وہ مال بلاعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے: سود، چوری، رشوت یاغلطی سے وہ رقم مال میں آگئی وغیرہ تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، یعنی وہ جہاں سے آیا ہے وہیں اسے واپس دے دیا جائے، مالک وفات پاچکا ہو تو اس کے ورثاء کو لوٹا دیا جائے،اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر اسے مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے، اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہو، جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعے تو اسے مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہی ایک مصرف ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے،حرام مال میں صدقے کے ثواب کی نیت کرنا یا اس نیت سے حرام حاصل کرنا کہ فقراء کودے دیا جائے گا، ناجائزہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
عن أبي حازم ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم}. وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم}، ثم ذكر الرجل يطيل السفر، أشعث أغبر يمد يديه إلى السماءيا رب يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك۔"
(کتاب الزکوۃ،باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها،ج،3،ص،85،رقم،1015: دارالطباعة العامریة)
فتاوی شامی میں ہے:
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".
(كتاب البیوع ،مطلب فيمن ورث مالا حراما،ج،5،ص،99، ط: سعید)
مجمع الانہر میں ہے:
"ولو تصدق على فقير شيئا من المال الحرام يرجو الثواب يكفر ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمن المعطي كفرا".
(كتاب السير، باب المرتد، ألفاظ الكفر أنواع، ج:1، ص:667، ط:دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412100027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن