بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کام کی نوکری اور اس سے حاصل شدہ آمدنی کا حکم


سوال

میں ایک سال پہلے نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی کے اندر مارکیٹنگ کی آن لائن نوکری پر لگا،اور تاحال اسی میں کام کررہا ہوں ،جوکہ نیوزی لینڈ میں مقیم مسلمانوں کی کمپنی ہے ،میں خود کراچی میں رہتا ہوں ،جس میں ہفتہ کے چھ دن صرف 3 گھنٹے ان کے لیے مارکیٹنگ کرنی ہوتی ہے،ہر ماہ چھ ہزار روپے اور ہر آڈر کا دس فیصد کمیشن بھی مجھے  ملتا ہے،کمپنی ڈیزائینگ کاکام کرتی ہے،ڈیزائینگ میں بزنس کارڈ،بینر،لوگو ،وغیرہ شامل ہیں،میں انٹرنیٹ کے ذریعہ پارٹیوں سے رابطہ کرتا ہوں اور ان کی ضرورت کے مطابق کمپنی کے ڈیزائنر سے  کام کروا کے پارٹیوں کے حوالے کرتا ہوں،میرا کام صرف کمپنی اور پارٹیوں کے درمیان رابطہ کا ہوتاہے،ایک دفعہ میں نے ایک پارٹی کو جو کہ غیر مسلم تھے،ڈیزائنر سے ایک بینر بنوا کردیا جو کہ ایک گانا بجانے کے شو کا اشتہار تھا،جس میں ایک خاتون کی تصویر بھی تھی،اسی طرح ایک مسیحی برادری کی عبادت گاہ کے لیے لوگو بنوایا،اسی طرح کمپنی ویب سائٹ بھی بناتی ہے جس میں  جانداروں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی ہوتی ہیں،اس دور میں چونکہ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں ،تو اگر کپڑے کے کاروبار کرنے والے کو ویب سائٹ کے ذریعے کاروبار کرنا ہے تو وہ انسانی (مرد وعورت ) کی تصاویر کے ساتھ کپڑوں کی نمائش کرتا ہے،اس دوران میں نے ایک ویب سائٹ اور ایک بینر ایسا بنوایا جس میں جاندار کی تصویریں تھیں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں اس طرح کے کمیشن والی نوکری کرنا شرعاً درست ہے؟اس کام سے جو آمدنی حاصل ہوئی اس کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟اگر اس کام سے حاصل شدہ آمدنی حلال نہیں تو اس آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جاندار کی تصویر بینی اور تصویر سازی شرعاًناجائز اور حرام ہے احادیث میں اس کی سخت وعید آئی ہے،نیز گناہ کے کام پر اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے، چاہے مسلمان کو بناکر  دے یا کافر کو،  دونوں کا حکم ایک ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کا کمپنی کے ذریعے ایسے لوگو ،بینر یا ویب سائٹ تیار کرکے پارٹیوں کو مہیا کرنا جس میں جاندار کی تصاویر یا ویڈیوز ہوں تو یہ کام کرنا شرعاً حرام ہے ،اور اس پر سائل کا کمیشن لینا بھی جائز نہیں ،البتہ اگر سائل کمپنی کے ذریعے ایسے بینرز،لوگو یا ویب سائٹ بنوا کر پارٹیوں کو دے جن میں جاندار کی تصاویر نہ ہوں تو کمپنی کا  یہ کام کرنا جائز ہے اور سائل کےلئے   رابطہ کے طور پر فروخت کروانے پر  اپنی تنخواہ اور کمیشن لینا بھی جائز ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضي اللّٰہ عنه قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیه وسلم یقول: إن أشد الناس عذابًا عند اللّٰہ یوم القیامة المصورون."

(کتاب اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامة، 880/2، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و منها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومةً."

(کتاب الإجارۃ ،الباب الاول فی تفسیر الإجارۃ،411/4،ط:رشیدیه)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورہ مائدة ،381/2،ط:دارالکتب العلمیة)

صحيح مسلم ميں هے:

"عن النعمان بن بشير، قال: سمعته يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: - وأهوى النعمان بإصبعيه إلى أذنيه، إن الحلال بين، وإن الحرام بين، وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس، ‌فمن ‌اتقى ‌الشبهات استبرأ لدينه، وعرضه، ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام."

(كتاب المساقاة،باب الربا،باب أخذ الحلال وترك الشبهات،1219/3،ط:دار احياء التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں