بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام اشیاء کی ڈلیوری کرنا اور اس کا حکم


سوال

میں یورپ میں ڈلیوری بوائے کا کا م کرتا ہوں جہاں اکثر غیر مسلم ہوتے ہیں ، ان کو  ان کی مرضی کے مطابق اشیاء پہچانا ہوتی ہے ، جس میں مثلا چائنیز فوڈ  اور دیگر ایسی اشیاء بھی ہوتی ہیں جو غیر مسلم استعمال کرتے ہیں ، مسلمانوں کے لیے  ان کا کھانا حلال نہیں ہے ، تو میرا یہ کام (ڈلیوری کا) شرعا جائز ہے یا نہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ حرام کام میں تعاون بھی گناہ کا سبب ہوتا ہے یہاں تک کہ شراب پینے والے کے ساتھ احادیث مبارکہ میں پلانے والے، اسے بنانے والے اور اسے اٹھا کر پہنچانے والے پر بھی اللہ کی لعنت کا ذکر ہے؛ لہذا حرام اشیاء کی ڈیلیوری کرنا اور اس کے بدلہ جو پیسے آپ کو ملتے ہیں، وہ ناجائز ہیں، اولاً متبادل مکمل حلال روزگار کی کوشش کیجیے، یا جس ادارے سے آپ کا تعلق ہے اس کی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ کے لیے حرام اشیاء کی ڈیلیوری ممکن نہیں ہے، وہ ایسے آرڈر آپ کے حوالے نہ کریں اور حرام اشیاء کی ڈیلیوری پر حاصل ہونے والی رقم  اگر وصول کرلی ہو تو اسے بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں۔ تاہم جو پیسے حلال اشیاء کی ڈیلوری کے عوض ملے ہوں، ان کا استعمال جائز ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

" عن أنس بن مالك قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌في ‌الخمر ‌عشرة: عاصرها، ومعتصرها، وشاربها، وحاملها، والمحمولة إليه، وساقيها، وبائعها، وآكل ثمنها، والمشتري لها، والمشتراة له."

(سنن الترمذي، أبواب البيوع، باب النهي عن أن يتخذ الخمر۔۔،2 / 580، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت) 

ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے شراب کے بارے میں ان دس افراد پر لعنت فرمائی ہے: شراب نچوڑنے والا، جس کے لیے شراب نچوڑی جائے، شراب پینے والا، اور شراب کو اٹھا کر لے جانے والا، اور جس کی طرف شراب اٹھا کر لے جائی جائے، اور شراب پلانے والا، اور شراب بیچنے والا، اور اس کی قیمت وصول کر کے کھانے والا، اور اسے خریدنے والا اور جس کے لیے خریدی جائے‘‘۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر). وفي الرد: (قوله وحمل خمر ذمي) قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا هو مكروه " لأنه – عليه الصلاة والسلام – «لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها» وله أن الإجارة علی الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول علی الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلی هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعی له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره."

(كتاب الحظر والإباحة، 6/ 392 ، ط: سعید)

بذل المجہود میں ہے :

 "ومتفق عليه أن كل اُجرة تكون علی فعل المعصية تكون حراما."

(کتاب  ا لإجارة ، باب في كسب الحجام ، 129/11،مكتبه :دارالبشائر  بيروت  ) 

وفيه ايضاّ :

‌"وأما ‌إذا ‌كان ‌عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يردّه إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلَّا أن يدفعه إلى الفقراء۔۔ولكن لا يريد بذلك الأجر والثواب، ولكن يريد دفع المعصية عن نفسه."

( كتاب الطهارة ، باب فرض الوضوء ، 1/ 359-360، ط: بيروت  )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309100411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں