گیارہ بھائیوں کا مشترکہ کاروبار ہے، ان میں سے ایک بھائی کو بقیہ دس بھائیوں نے کاروبار تقسیم کیے بغیر اور کچھ دیئے بغیر چار سال سے نکال دیا، اب اس ایک بھائی نے جو چار سال سے گھر اور اجتماعی کاروبار سے دور تھا، اپنا کاروبار ، اور کچھ اور جائیداد بنائی، تو کیا اس ایک بھائی نے جو کاروبار بنایا ہے اس میں باقی دس بھائیوں کا بھی حصہ ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی محنت اور بل بوتے پر جو کاروبار اور جائیداد بنائی ہے، اس میں بقیہ دس بھائیوں کا کوئی حق نہیں ہوگا، البتہ گیارہ بھائیوں کا جو مشترکہ کاروبار، اور گھر ہے، اس میں اس بھائی کا بدستور حق رہے گا، جسے بقیہ دس بھائیوں نے گھروں کاروبار سے حصہ دئے بغیر بے دخل کیا ہوا ہے۔
کفایت المفتی میں ہے:
"جب لڑکوں نے جدا جدا کمایااور جدا جدا جائیداد بنائی تو ہر ایک اپنی جائیداد کا جداگانہ مالک ہوگا، صرف ہم طعام ہونے سے جائیداد مشترک نہیں ہوجاتی، ہاں باپ کا ترکہ قاعدہ وراثت کے مطابق سب وارثوں میں تقسیم ہوگا۔"
(کفایت المفتی ، ٨ / ٢٨٤، ط: دارالاشاعت)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
" (وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما) نصفين إن لم يعلم ما لكل
(قوله: وما حصله أحدهما) أي بدون عمل من الآخر."
( كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ٤ / ٣٢٥، ط: دار الفكر )
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
(أقول) وفي الفتاوى الخيرية سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته أجاب هي للابن تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه."
( كتاب الدعوی، ٢ / ١٧ - ١٨، ط: دار المعرفة )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403100430
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن