بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حق جوار کے بنیاد پر شفعہ کا مطالبہ کرنا


سوال

صورت مسئلہ:

الف
بج

مذکورہ مسئلہ میں "الف"اور"ب" میری زمین ہے،مسمی "ج"زمین فروخت ہوگئی،لیکن فروخت کرتے وقت مالک نے ہم سے بالکل نہیں پوچھاکہ تم نے لیناہے یا نہیں ؟ البتہ بیچنے کا علم ہونے پر میں نے لوگوں کو کہا کہ میں تو یہ  زمین خریدنے والاہوں،اس لئے کہ دو طرف  سے میری زمین مذکورہ زمین کے ساتھ متصل ہے،جیسا کہ اوپر نقشہ  سے ظاہر ہے،جس میں الف اورب میری زمین ہے ،ج مذکورہ فروخت شدہ زمین ہے،اوراس کے بعد دونوں فریقین ( مالک زمین اورخریدنے والے ) سے بھی  لوگوں کے موجود گی میں کہا کہ میں یہ زمین خریدنا چاہتاہوں ،لیکن اس کے باوجود یہ زمین مجھے نہیں دی گئی،جبکہ  میں یہ زمین کسی اورکو فروخت کرنے پر بالکل راضی نہیں ہوں،اس کے بعد یہ ہو اکہ "ج" کے مالک نے مذکورہ فروخت شدہ زمین خرید نے والے شخص سے واپس کرادیااورایک ایسے شخص پر فروخت کردیا،جس کا مذکورہ "ج" زمین کے قرب وجوار میں کوئی زمین نہیں ہے،اس مرتبہ بھی مذکورہ زمین مجھے نہیں دی گئی اور میں بدستور اس زمین کے طلب میں تھا اورمیں نے اس کا اظہار بھی کیاجیسا مجھے علم میں ہوااورپھر دوبارہ مالک زمین سے مطالبہ کیا،لیکن  اب تک  میں اس زمین سے محروم ہوں،کیا حق شفعہ کے بنا پر مذکورہ زمین کا حقدار میں ہوں یا نہیں ؟

نیز یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ مسمی "ج"  کی زمین کے ساتھ میر ے علاوہ جن لوگوں کی زمین متصل ہے انہوں نے عدمِ طلبی اور نہ لینے کا اظہار کیاہے اوراب بھی لینے پر امادہ نہیں ہے،صرف  میں اس زمین کی خریداری کا طلب میں ہوں،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس تیسرے آدمی کے لیے میری اجازت کے بغیر مذکورہ زمین کی خریداری درست ہے؟کیا شرعاً میں مذکورہ زمین کے خریدنے کا حقدار ہوں یانہیں ؟ 

جواب

صورت مسئلہ میں چوں کہ سائل نے  زمین کی فروختگی کاعلم ہوتے ہی شفعہ کا حق اپنے لیے محفوظ ہونے  کا اعلان کیاہے اور"لوگوں کوکہا کہ میں تو یہ زمین خریدنے والاہوں اس لئے کہ دو طرف سے میری زمین مذکورہ زمین سے متصل ہے "اوراس کے بعد فریقین ( مالک زمین اورخریدنے والے ) سے لوگوں کے سامنے مطالبہ بھی کیاہے ،  تو ایسی صورت میں شفیع کا شفعہ کرنا  درست  ہےاورسائل مذکورہ زمین کو حق شفعہ کے بنیاد پر خریدنے کا حق رکھتا ہے۔ 

مختصر القدوری میں ہے:

"الشفعة واجبة للخيلط في نفس المبيع، ثم للخليط في حق المبيع كالشرب والطريق، ثم للجار، وليس للشريك في الطريق والشرب والجار شفعة مع الخليط، فإن سلم فالشفعة للشريك في الطريق فإن سلم أخذها الجار، والشفعة تجب بعقد البيع وتستقر بالإشهاد، و تملك بالأخذ إذا سلمها المشتري أو حكم بها حاكم، و إذا علم الشفيع بالبيع أشهد في مجلسه ذلك على المطالبة، ثم ينهض منه فيشهد على البائع إن كان المبيع في يده أو على المبتاع أو عند العقار، فإذا فعل ذلك استقرت شفعته ولم تسقط بالتأخير عند أبي حنيفة وقال محمد: إن تركها شهرًا بعد الإشهاد بطلت شفعته."

( كتاب الشفعة،ص: 106،ط: دارالکتب العلمیة بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں