بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھپکلی مارنےکاحکم ہواہے،اس بناء پر ہےکہ وہ بذاتِ خودایک ضرررساں اورموذی چیزہے


سوال

احادیث میں چھپکلی کو مارنے کا حکم ہے ،بعض لوگ طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ،ایک صاحب سے جب اس بارے میں کہا گیا تو اس نے کہا کہ کیا اگر باپ گناہ کرے تو کیا اولاد پر حد جاری ہوسکتی؟ اگر نہیں تو چھپکلی کو کیوں مارا جارہا ہے ،موجودہ زمانے میں جو چھپکلی ہے اس نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو نہیں بھڑکایا؟ بلکہ وہ تو ان کی آباء  و اجداد میں سے تھی ، حضرت اس متعلق راہ نمائی فرمادیں ،بعض لوگوں کے اشکالات عام مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈالتے ہیں ؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں جوچھپکلی مارنےکاحکم ہواہے،وہ اس بناء پرہے چھپکلی اور اس ملتی جلتی حشرات  کی فطرت میں خرابی پیدا کرنا اور نقصان پہنچاناموجود ہے،اسی باطنی خبث کی وجہ سے  سالن اور کھانے وغیرہ  کو خراب کردیتی ہےجب کوئی چیزنہ ملے،تو پھر یہ  چھت پر جاکراپنی گند گی  کو  اوپر سے  نیچےپھینکتی ہے ،نیز بسا اوقات یہ بر تن وغیرہ میں اپنی  رال وغیرہ گرا دیتی ہے ، اگر انسان وہ پانی پیے تو اس کو  سخت قسم کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ،جس میں ایک انتہائی مہلک مرض برص کی بیماری بھی شامل ہے ،اپنی اندرونی گندگی اور نقصان پہنچانےکی خطرت کی وجہ سے ہی اس نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے لگائی جانے والی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی اس تفصیل سے یہ اشکال دور ہوجاتاہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام پر موجودہ چھپکلیوں نے آگ نہیں بھڑکائی تو انہیں مارنے کاحکم کیوں ہے؟کیوں کہ مارنے کی وجہ نقصان پہنچانا اور گندگی پھیلانا ،جو موجودہ چھپکلیوں میں بھی موجودہے۔

شرح المصابیح میں ہے:

"وعن أم شريك: أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أمر ‌بقتل ‌الوزغ، وقال: "كان ينفخ على نار إبراهيم".

"عن أم شريك: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أمر ‌بقتل ‌الوزغ" بفتحتين وزاي وغين معجمتين: واحدها وزغة، وهي دويبة مؤذية، وسام أبرص كبيرها، وجمعها: أوزاغ ووزغان."

"وقال: كان ينفخ على إبراهيم"؛ أي: ناره؛ لخبثها وإفسادها، وأنها بلغت مبلغا استعملها الشيطان، فحملها على نفخ النار الملقى فيها الخليل عليه السلام، وهي من ذوات السموم، ومن شغفها بإفساد الطعام - وخصوصا الملح - أنها إذا لم تجد طريقا إلى إفساده، ارتقت السقف، وألقت خرءها فيه من موضع يحاذيه، وفي الحديث بيان أن جبلتها على الإساءة."

(كتاب الصيد والذبائح،باب ما يحل أكله وما يحرم،ج:4،ص:509،رقم الحدیث:3139،ط:إدارة الثقافة الإسلامية)

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"من قتل وزغةً في أول ضربة فله كذا وكذا حسنة، ومن قتلها في الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة لدون الأولى، وإن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة لدون الثانية. وفي رواية: من قتل وزغًا في أول ضربة كتب له مائة حسنة وفي الثانية دون ذلك وفي الثالثة دون ذلك وفي رواية في أول ضربة سبعين حسنةً، قال أهل اللغة: الوزغ وسام أبرص جنس فسام أبرص هو كباره واتفقوا على أن الوزغ من الحشرات المؤذيات وجمعه أوزاغ ووزغان وأمر النبي صلى الله عليه وسلم بقتله وحث عليه ورغب فيه لكونه من المؤذيات وأما سبب تكثير الثواب في قتله بأول ضربة ثم ما يليها فالمقصود به الحث على المبادرة بقتله والاعتناء به وتحريس قاتله على أن يقتله بأول ضربة فإنه إذا أراد أن يضربه ضربات ربما انفلت وفات قتله."

(كتاب قتل الحيات وغيرها،باب استحباب قتل ‌الوزغ،ج:14،ص:236،ط:دار إحياء التراث العربي)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وذكر بعض الحكماء: أن الوزغ أصم أبرص وأنه لا يدخل بيتا فيه زعفران، وأنه يلقح بفيه، وأنه يبيض، ويقال لكبارها: سام أبرص بتشديد الميم، ويمج في الإناء فينال الإنسان من ذلك مكروه عظيم، وإذا تمكن من الملح تمرغ فيه، ويصير ذلك مادة لتولد البرص، وينحجز في الشتاء أربعة أشهر لا يأكل شيئا كالحية، وبينه وبين الحية إلفة كإلفة العقارب والخنافس."

(كتاب بدء الخلق،باب قول الله تعالى {واتخذ الله إبراهيم خليلا،ج:15،ص:239،ط:(دار إحياء التراث العربي، ودار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں