بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بددعا کا ثبوت


سوال

حدیث شریف میں  آتا ہے کہ ایک  مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھتے ہوئے جبریل امین کی بددعا پر آمین کہا ،کیا اس کے علاوہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بددعا کرنا ثابت ہے؟یا صرف اسی موقعہ پر  بددعا پر آمین کہا؟

2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ مبارکہ کی امامت کس نے کی؟

3) حجر اسود جنت سے کب آیا ؟ابراہیم  علیہ السلام کے زمانہ میں یا اس سے پہلے؟

جواب

1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی اپنی ذات کے لیے کسی کو بددعا نہ دیتے تھے ،اور اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیتے تھے ، لیکن جو کفار اسلام اور مسلمانوں کے لیے مضر اور نقصان دہ ثابت ہورہے تھے تو   رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  بعض  مواقع پر ان کفار اور ظالموں کے لیے بددعا فرمائی ہے ،نماز میں قنوت نازلہ بھی  پڑھی ہے،اور خا ص خاص آدمیوں کے لیے بھی بددعا فرمائی ہے ۔

صحيح البخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة : أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان إذا رفع رأسه من الركعة الآخرة يقول: اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج الوليد بن الوليد، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف."

(كتاب الاستسقاء ،باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم اجعلھا علیھم الخ،26/2،ط:السلطانیہ مصر)

صحيح البخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «كان إذا أراد أن يدعو على أحد، أو يدعو لأحد، قنت بعد الركوع، فربما قال، إذا قال: سمع الله لمن حمده: اللهم ربنا لك الحمد، اللهم أنج الوليد بن الوليد، وسلمة بن هشام، وعياش بن أبي ربيعة، اللهم اشدد وطأتك على مضر، واجعلها سنين كسني يوسف، يجهر بذلك، وكان يقول في بعض صلاته في صلاة الفجر: اللهم العن فلانا وفلانا، لأحياء من العرب، حتى أنزل الله: {ليس لك من الأمر شيء} الآية."

(کتاب التفسیر ،باب لیس لک من الامر ،38/6،ط:السلطانیہ مصر)

2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی تھی مگر کسی نے امامت نہیں کی تھی، اس لیے کہ آپ کی نماز جنازہ جماعت کے ساتھ نہیں ہوئی تھی، بلکہ لوگ گروہ در گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں داخل ہوتے اور الگ الگ نماز پڑھ کر نکل جاتے۔

البدایۃ  والنہایۃ  میں ہے:

"قال الواقدی :حدثنی  موسیٰ بن محمد ابن ابراہیم قال:وجدت کتاباً بخط أبی فیه :إنه لما کفن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ووضع علی سریرہ ،دخل أبوبکر وعمر رضی اللہ عنھما ومعھما نفر من المھاجرین والأنصار بقدر مایسع البیت فقالا: السلام علیک أیھا النبي ورحمة اللہ وبرکاته، وسلم المھاجرون والأنصار کما سلم أبو بکر وعمر رضی اللہ عنھما ثم صفوا صفوفا لا یؤمھم أحد، فقال أبوبکر وعمر وھما فی الصف الأول حیال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم : اللھم إنا نشھد أنه قد بلغ ما أنزل إلیه ،ونصح أمته، وجاھد فی سبیل اللہ حتٰی أعز اللہ دینه وتمت کلمته، و أومن به وحدہ لا شریک له،فاجعلنا إلھنا ممن یتبع القول الذي أنزل معه ، اجمع بیننا وبینه حتی تعرفه بنا وتعرفنا به، فإنه کان بالمؤمنین رءوفا رحیما،لا نبتغي بالإیمان به بديلاً ولا نشتري به ثمنا أبداً، فیقول الناس: آمین آمین، ویخرجون ویدخل آخرون حتی صلی الرجال ثم النساء ،ثم الصبیان ."

(باب کیفیۃ الصلاۃ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم،251/3،ط: دارالحدیث قاہرہ)

3)حجرِ اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے, اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا،طوفان ِ نوح کے بعد  ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر بیت اللہ کے وقت دوبارہ نصب کیا۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

" وروي عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: أن الله تعالى لما أمر إبراهيم بعمارة البيت خرج من الشام ومعه ابنه إسماعيل وأمه هاجر، وبعث معه السكينة لها لسان تتكلم به يغدو معها إبراهيم إذا غدت، ويروح معها إذا راحت، حتى انتهت به إلى مكة، فقالت لإبراهيم: ابن على موضعي الأساس، فرفع البيت هو وإسماعيل حتى انتهى إلى موضع الركن، فقال لابنه: يا بني، ابغني حجرا أجعله علما للناس، فجاءه بحجر فلم يرضه، وقال: ابغني غيره، فذهب يلتمس، فجاءه وقد أتى بالركن فوضعه موضعه، فقال: يا أبة، من جاءك بهذا الحجر؟ فقال: من لم يكلني إليك. ابن عباس: صالح أبو قبيس : يا إبراهيم، يا خليل الرحمن، إن لك عندي وديعة فخذها، فإذا هو بحجر أبيض من ياقوت الجنة كان آدم قد نزل به من الجنة، فلما رفع إبراهيم وإسماعيل القواعد من البيت جاءت سحابة مربعة فيها رأس فنادت: أن ارفعا على تربيعي. فهذا بناء إبراهيم عليه السلام ."

(تفسیر قرطبی،389/2، ط: دارالرسالۃ العالمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں