بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوٹل مالکان سے ہوٹل کا ایک کمرہ خرید کر ہوٹل والوں کو ماہانہ کرایہ پر دینا


سوال

ہوٹل اپنے کمروں کو ایک خاص مقدار میں فروخت کررہا ہے۔ میں ایک کمرہ خریدنا چاہتا ہوں، ہوٹل مجھے 0.8٪ ماہانہ کرایہ دے گا۔ ہر سال ان میں 5٪ اضافہ ہوگا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا شریعت کے مطابق اس ہوٹل کا اپارٹمنٹ یا کمرہ خریدنا ٹھیک ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  دونوں معاملے الگ الگ ہوں، ایک معاملہ دوسرے معاملہ کے ساتھ مشروط نہ ہو،  یعنی پہلے آپ ہوٹل کے مالک سے ایک کمرہ خرید لیں اور اس کی پیمنٹ کی ادائیگی کردیں تو آپ اس کمرے کے مالک ہوجائیں گے اور اس کے مالکانہ حقوق اور ذمہ داریاں آپ ہی کی ہوں گی، اور پھر یہ معاملہ مکمل ہونے کے بعد ایک نیا معاہدہ کرکے  ہوٹل والوں کو آپ وہ کمرہ کرایہ پر دے دیں  تو یہ جائز ہے۔ اور آپ اپنے کمرے کا  ہوٹل والوں سے طے شدہ کرایہ لینا جائز ہوگا۔

لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ   سودے میں یہ شرط نہ رکھی گئی ہو  کہ اس شرط پر آپ کو کمرہ بیچ رہیں ہیں  آپ ہمیں  کرایہ پر دو گے، بلکہ مطلقاً  سودا ہو۔ اگر نفسِ  سودے میں ہی کرایہ پر لینے کی شرط ہو تو یہ معاملہ فاسد ہوگا، اس کو فسخ کرکے از سر نو نیا معاملہ کرنا پڑے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84):
" (قوله: ولا بيع بشرط) شروع في الفساد الواقع في العقد بسبب الشرط؛ «لنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط»، لكن ليس كل شرط يفسد البيع، نهر. وأشار بقوله: بشرط إلى أنه لا بد من كونه مقارناً للعقد؛ لأن الشرط الفاسد لو التحق بعد العقد، قيل يلتحق عند أبي حنيفة، وقيل: لا، وهو الأصح، كما في جامع الفصولين، لكن في الأصل أنه يلتحق عند أبي حنيفة وإن كان الإلحاق بعد الافتراق عن المجلس، وتمامه في البحر. قلت: هذه الرواية الأخرى عن أبي حنيفة وقد علمت تصحيح مقابلها، وهي قولهما ويؤيده ما قدمه المصنف تبعاً للهداية وغيرها، من أنه لو باع مطلقاً عن هذه الآجال ثم أجل الثمن إليها صح، فإنه في حكم الشرط الفاسد كما أشرنا إليه هناك، ثم ذكر في البحر: أنه لو أخرجه مخرج الوعد لم يفسد. وصورته كما في الولوالجية قال: اشتر حتى أبني الحوائط اهـ.
قال في النهر بعد ما ذكر عبارة جامع الفصولين: وبهذا ظهر خطأ بعض حنفية العصر، إذ أفتى في رجل باع لآخر قصب سكر قدراً معيناً، وأشهد على نفسه بأنه يسقيه ويقوم عليه بأن البيع فاسد؛ لأنه شرط تركه على الأرض، نعم الشرط غير لازم اهـ. قلت: وفي جامع الفصولين أيضاً: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمةً فيجعل لازماً لحاجة الناس، تبايعا بلا ذكر شرط الوفاء ثم شرطاه يكون بيع الوفاء؛ إذ الشرط اللاحق يلتحق بأصل العقد عند أبي حنيفة ثم رمز أنه يلتحق عنده لا عندهما، وأن الصحيح أنه لايشترط لالتحاقه مجلس العقد. اهـ وبه أفتى في الخيرية وقال: فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد اهـ. قلت: فهذا أيضاً مبني على خلاف ما مر تصحيحه، والظاهر أنهما قولان مصححان".

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں