بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوٹل کو دیکھے بغیر پیسوں کے عوض فائیو اسٹارز کا ریویو دینا


سوال

اگر کوئی ہوٹل والے مجھ سے یہ کہیں  کہ  ہمارے ہوٹل کو 5 اسٹارز کا  ریویو دیں،  حالاں کہ میں نہ ان کو جانتا ہوں اور نہ ہی ہوٹل کو،  اور وہ ریویو  دینے پر مجھے  پیسے  دے رہے ہوں  تو کیا میرے لیے یہ  پیسے حلال ہوں گے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب او ر اس کو افضل کمائی قراردیا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا:سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔ نیز جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے، اس کے بارے میں بہت سخت وعیدیں وارد ہیں، چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صبح کی نماز ادا کی، نماز کے بعد آپ علیہ السلام نے کھڑے ہوکر فرمایا:جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: آگاہ رہو! کیا میں تمہیں گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ ہم (صحابہ) نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا، اور آپ ﷺ(اس ارشاد کے وقت) تکیہ لگائے تشریف فرماتھے، پھر آپ ﷺ (تکیے سے ہٹ کر) بیٹھ گئے اور فرمایا: آگاہ رہو! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی، اور اس جملے کو آپﷺ مسلسل دھرانے لگے، (اتنا زیادہ دہرایاکہ) کہ ہم تمنا کرنے لگے کہ آپ ﷺ خاموش ہوجائیں۔

مذکورہ تمہید کو سامنے رکھتے ہوئے پیسوں کے حصول کے لیے محض ہوٹل والوں کے کہنے پر، ہوٹل دیکھے بغیر ان کے ہوٹل کو فائیو اسٹار کا ریویو دیناآپ کے لیے جائز نہیں ہے، یہ ان کے ہوٹل کے عمدہ ہونے کے بارے میں جھوٹی گواہی ہے، اس جھوٹی گواہی کے نتیجے میں  دیگر عوام اس ہوٹل کی بکنگ کروائیں گے اور بعد میں ان کو عمدہ کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جب کہ مسلمان کو ایذاء پہنچانے کی ممانعت ہے، مزید یہ کہ ہوٹل والوں کی طرف سے آپ کو جو پیسے ملیں گے، یہ گناہ کے کام کا معاوضہ ہوگا جو کہ ناجائز ہے،  لہٰذا آپ کے لیے اس کام کے عوض پیسے لینا جائز نہیں ہے، یہ پیسے آپ کے لیے حلال نہیں ہوں گے۔

شعب الایمان للبیہقی میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم أيّ الكسب أطيب؟ قال:عمل ‌الرجل ‌بيده، وكلّ بيع مبرور."

(باب التوكل بالله عزّ وجلّ..، ج:٢، ص:٨٤، رقم:١٢٢٤، ط:دارالكتب العلمية)

بخاری شریف میں ہے:

"عن المقدام رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:ما ‌أكل ‌أحد ‌طعاما ‌قط، خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود عليه السلام كان يأكل من عمل يده."

(كتاب البيوع، باب كسب الرجل وعمله بيده، ج:٣، ص:٥٧، رقم:٢٠٧٢، ط:دار طوق النجاة)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"(أبو بكرة رضي الله عنه قال كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ألا أنبئكم بأكبرالكبائر، ثلاثا، الإشراك بالله وعقوق الوالدين وشهادة الزور أو قول الزور وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم متكئا فجلس فما زال يكررها حتى قلنا ليته سكت)...وأما قوله فكان متكئا فجلس فما زال يكررها حتى قلنا ليته سكت فجلوسه صلى الله عليه وسلم لاهتمامه بهذا الأمر وهو يفيد تأكيد تحريمه وعظم قبحه وأما قولهم ليته سكت فإنما قالوه وتمنوه شفقة على رسول الله صلى الله عليه وسلم وكراهة لما يزعجه ويغضبه."

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وأكبرها، ج:٢، ص:٨٢-٨٨، ط:دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن خزيم بن فاتك رضي الله عنه، قال: صلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - صلاة الصبح، فلما انصرف، قام قائما، فقال: " عدلت ‌شهادة ‌الزور بالإشراك بالله. ثلاث مرات، ثم قرأ: {فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور - حنفاء لله غير مشركين به}. رواه أبو داود، وابن ماجه.

(قال: عدلت ‌شهادة ‌الزور) : بضم أوله ; أي: الكذب (بالإشراك بالله) : أي: جعلت الشهادة الكاذبة مماثلة للإشراك بالله في الإثم ; لأن الشرك كذب على الله بما لا يجوز، وشهادة الزور كذب على العبد بما لا يجوز، وكلاهما غير واقع في الواقع. قال الطيبي: والزور من الزور والازورار، وهو الانحراف، وإنما ساوى قول الزور الشرك ; لأن الشرك من باب الزور، فإن المشرك زاعم أن الوثن يحق العبادة (ثلاث مرات) : أي: قالها ثلاث مرات للتأكيد والمبالغة في الوعيد."

(كتاب الإمارة والقضاء، باب الأقضية والشهادات، ج:٦، ص:٢٤٤٩، رقم:٣٧٧٩، ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل".

(باب المهر، ج:٣، ص:١٥٦، ط:سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ  میں ہے :

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم."

(إجارة، الفصل السابع، الإجارة على المعاصي والطاعات، ج:١، ص:٢٩٠، ط:دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں