بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوٹل کے کمرے کمیشن پر بک کرانے اور کرایہ کے کمرے آگے کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

میں ابھی دسمبر کے مہینے میں   روزی کی تلاش میں مدینہ منورہ گیا ہوں  یہاں میں حج اور عمرے پر  حاجیوں کے لیے ہوٹل اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا بندوبست کرتا ہوں ، یہاں کام کی یہ صورت ہے کہ بکنگ کے وقت ہم لوگ یا تو کمیشن پر  کام کرتے ہیں ،جیسے 10 کمرے چڑھانے پر 100،200 ریال ملتے ہیں، یا ہم ڈائریکٹ ہوٹل سے خرید کر لوگوں کو بیچتے ہیں، جس میں ہمیں کچھ رقم بچ جاتی ہے،جو ہمارا منافع بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ  اوپر دی گئی دونوں صورتوں پر کام کرنا  صحیح ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں    دس کمرے کرایے پر دینے  کی صورت میں  سو  دو سو  ریال کمیشن لینا    جائز ہے۔

اور دوسری صورت میں اگر  ہوٹل سے خرید نے سے واقعی  کمروں  کی خریداری مراد ہو تو       ڈائریکٹ ہوٹل سے خرید کر  لوگوں پر منافع کے ساتھ بیچنا جا ئز ہے  ،لیکن اگر ہوٹل سے  خریدنے سے مراد کرایہ پر لینا (بک کرانا)مراد ہو جیسے عام طور پر ہوتا ہے تو اس صورت میں    ہوٹل کے مالک   سے جتنے کرایے پر لیےہیں  اس  سے زیادہ کرایہ پر آگے دینا جائز نہیں ہوگا، تاہم اگر پہلے کرایہ دار نے خود کرایہ پر لینے کے بعد اس  پر کچھ  پیسہ خرچ کیا    ہو، مثلاً  اس کی مرمت وغیرہ کرائی  یا الماری ، پنکھا،فرنیچر وغیرہ  رکھا ہو تو اس صورت میں آگے  زائد کرایہ پر دینا جائز ہوگا ،اسی طرح اگر معاملہ مخالف جنس میں ہو  مثلا    پہلے کرایہ دار نے   معاملہ  ہزار  ریال  میں   کیا ہو اور آگے    دوسروں کو   ہزار  ریال  کی مالیت سے زیادہ روپوں      میں دیا  ہو  تو بھی جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي ‌الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة".

( كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة،مطلب في أجرة ‌الدلال، ج:6 ،ص:63، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(كتاب البيوع،فروع في البيوع،ج:4،ص:460،ط:سعيد)

المحيط البرہاني  میں ہے:

"وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزاً عن المنازعة كما في باب البيع."

(كتاب الإجارات،الفصل الاول،ج:7، ص:395، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی  میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا۔۔۔(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط".

(كتاب الاجارة، ‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:6،ص:29، ط:سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله".

(كتاب الاجارة، ‌‌الفصل السابع: في إجارة المستأجر، ج:7، ص:429، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا ‌استأجر ‌دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة".

(كتاب الاجارة، الباب السابع في إجارة المستأجر، ج:4، ص: 425، ط:دارالفكر بيروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال[۸۱۳۸]:میرا   مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ ہے کیوں کہ میرے لڑ کے وہاں رہتے ہیں، میں ان سے علیحد ہ  ر ہتا ہوں ، لیکن وہاں کرایہ کے مکان میں رہنا چاہتا ہوں ۔ اگر میں وہاں پر کوئی موزون فلیٹ چھ آٹھ ہزار روپیہ پر لے لوں اور زمانہ حج میں مثلاً پندرہ ہزار ریال پر حجاج کو کرایہ پر دے دوں تو اس صورت میں مجھے آسانی سے آٹھ ہزار ریال کا منافع ہو جاۓگا۔ تو سوال یہ ہے کہ میں قرض حسنہ لے کر اس مکان کو جس کو میں نے کرایہ پر لیا ہے اس سے زائد کرایہ پر دوسروں کو دے سکتا ہوں کہ نہیں ؟ جواب سے مطلع فرمائیں ۔

الجواب حامداًومصليا:

جوصورت آپ چاہتے ہیں یہ تو حد و دحرم مبارک سے باہر کسی اور جگہ بھی درست نہیں ، جتنی رقم کسی جگہ بھی کرا یہ مکان کی آپ ادا کر یں اتنی رقم پر دوسرے کو دے سکتے ہیں ، اگر اس سے زیادہ رقم لیں گے تو اس کا صدقہ  کر دینا  ہوگا ۔"

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدہ، ج:16، ص:604، ط:ادارۃ الفاروق)

کفایت المفتی  کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

" کسی دکان ، مکان ، زمین کو اجارہ پر لے کر کرایہ پر دینا   اگر  باذن مالک ہو تو جائز ہے ۔ اور اگر بلااذن اور بغیر ممانعت صریحہ کے ہو تو اگر اول کرایہ دار اور دوسرے کرایہ دار کے طرزاستعمال میں کوئی تفادت نہ ہو تو بھی جائز ہے ۔اور اگر دوسرا اجارہ   اسی  قدر کرایہ پر واقع ہو جس قدر پر  پہلا  ہوا تھایا اس سے کم پر تو اجرت کے حلال طیب ہونے میں بھی تردد نہیں ۔ اگر زیادہ پر واقع ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مستاجر اول نے اپنی طرف سے کوئی زیادتی مکان و غیر ہ میں کر دی ہے۔ مثلا مکان میں فرش کرادیا ہے یا الماری  لگادی  ہے یا  اسیقسم کی اور کوئی چیز بڑ ھادی ہے تو اجرت زیادتی بھی حلال ہے ۔اور  وہ  دوسری صورت یہ کہ  کچھ  زیادتی نہیں کہ بلکہ بجنسہ  اسی طرح مکان و غیرہ   کرایہ پر دے دیا جس طرح اور جس حیثیت سے خود لیا تھا تو زیادتی اس کے لئے طیب نہیں۔"

(کتاب المعاش،پہلا باب نوکری، اجرت،کرایہ، ج:7، ص:331، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں