ایک ہاسپٹل ہے، جو ایک کمیٹی اور صاحب خیر کے ذریعہ چلایا جاتاہے،کیا اس میں پانی کے انتظام کیلئے زکوٰۃ کا پیسہ استعمال کرسکتےہیں؟
واضح رہے کہ زکات کی ادائیگی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ کسی فقیرمستحق شخص کے ہاتھ میں بلا عوض زکات کی رقم دے کر اس کو اس رقم کا مالک بنادیا جاۓ، لہذا کسی ایسے مصرف میں زکات کی رقم لگانا جس سے فائدہ تو اگرچہ غریب اور مستحق لوگ اٹھا رہے ہوں، لیکن وہ رقم ان کی ملکیت میں نہیں دی جارہی ہو، اس طرح صرف کرنے سے زکات ادا نہیں ہوگی۔
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں ہسپتال میں پانی کا انتظام کرنے کے لیے زکات کی رقم استعمال کرنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ رقم کسی فقیر مستحق شخص کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے ،اس کے بغیر وہ رقم زکات میں شمار نہیں ہوگی، اگر پانی کا انتظام کرنا ہے تو نفلی صدقات یا عطیات سے یہ کام کروالیاجاۓ یا دیگر اَصحابِ خیر حضرات کو اس طرف متوجہ کیا جاۓ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(كتاب الزكوة ،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،188/1،ط:دارالکتب العلمیة)
وفیہ ایضاً:
"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه."
(کتاب الزکوۃ،الباب السابع فی المصارف،207/1،ط:دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100743
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن