بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوش میں نہ ہونے کی حالت میں طلاق دینا


سوال

میں اپنی بی بی کو تین یا تین سے زیادہ طلاق دیا  ہے اور میں نے طلاق ایسی حالت میں دیا  ہے کہ  میں خود اپنے  ہوش میں نہیں تھا۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو  یعنی اُس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی،  اور اگر کسی شخص کا دماغی توازن ٹھیک ہو، محض زیادہ غصہ کی حالت میں طلاق دی ہو اور پھر اس کو ہوش میں نہ ہونے سے تعبیر کرے تو یہ درست نہ ہو گا اور ایسی  حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر واقعتًا آپ کا دماغی توازن کبھی کبھی بگڑ جاتا ہو، جس میں آپ کو اپنے افعال اور اقوال کا بالکل ہوش نہ رہتا ہو  اور آپ نے اسی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو تو  ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی، لیکن اگر آپ کا دماغی توازن درست ہو اور  سخت غصہ کے طاری ہونے کی حالت میں طلاق دی ہو  تو ایسی طلاق واقع سمجھی جائے گی، اس کے بعد ساتھ رہنا جائز نہیں ہو گا۔

نوٹ: اگر ہوش میں  نہ ہونے سے کچھ اور مراد ہے تو وضاحت کرکے سوال دوبارہ ارسال کردیجیے۔

الفتاوى الهندية (1/ 353):

"(فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه) يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغاً عاقلاً سواء كان حرا أو عبداً طائعاً أو مكرهاً، كذا في الجوهرة النيرة".

مصنف ابن أبي شيبة (4/ 73):

" عن قتادة قال: «الجنون جنونان، فإن كان لا يفيق، لم يجز له طلاق، وإن كان يفيق فطلق في حال إفاقته، لزمه ذلك»".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں