بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حوروں کے بارے میں چند سوالات


سوال

حوروں  کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے سنا ہے کہ اگر جنت میں کوئی شخص حور سے مباشرت کرے گا، تو وہ پھر سے پاک و صاف ہو جائے گی اور اسے حیض و نفاس نہیں آئیں گے، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ دلیل پیش کریں اور ہمارے ہاں ایک شخص کہتا ہے کہ اگر مسجد میں کسی کا بال گرا ہوا ہو ، تو اسے اٹھا کر پھینکنے سے جنت میں ایک خوبصورت حور ملے گی ، کیا یہ بات بھی صحیح ہے ؟ اور اگر آدمیوں کو حور ملے گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟ جنت کی طبقات کے حساب سے حوروں کی تعداد کتنی ہوگی ؟ اور کس طرح کے شخص کو کتنی حوریں ملیں گی ؟کیا حور کا انکار کفر ہے ؟ 

جواب

جنت میں مباشرت کرنے سے نہ جنتی مرد کی منی خارج ہوگی، نہ غسل لازم ہوگا، اسی طرح حوریں بھی حیض و نفاس سے پاک ہوں گی، نيز بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد سے  تکلیف دہ چیز اور کچرے وغیرہ کو نکالنا حور عین کا مہر ہے، لہذا مسجد سے بال وغیرہ پھینکا بھی حور عین کا مہر اور اس حدیث کا مصداق بن سکتاہے۔

جنتی عورت  اگر دنیا میں شادی شدہ تھی تو  جنت میں  اپنے جنتی  شوہر  کے ساتھ رہے گی اور شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہوگی، اور اگر دنیا میں اس جنتی عورت کے متعدد شوہر ہوں یعنی عورت  نے اپنے شوہر کے انتقال  یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کرلی ہو  تو   وہ جنت میں اپنے کس شوہر کے ساتھ رہے گی ؟  اس بارے میں  مختلف اقوال ہیں :

  (1)   اس عورت کو اختیار دیا جائے گا  کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کرلے۔

(2)   وہ عورت آخری شوہر  کے ساتھ رہے گی۔

(3) بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے کہ  اگر سب شوہر حسن خلق میں برابر ہوں تو  آخری شوہر کو ملے گی ورنہ اسے اختیار دیا جائے گا۔

صحیح تر احادیث سے ہر جنتی  کےلیے دو بیویاں (حوریں) ثابت ہے، اور جن احادیث میں اس سے زیادہ کا ذکر ہے اس سے مراد باندیاں ہیں اور جنت کے طبقات کے لحاظ سے اس کی تعداد بھی مختلف ہیں، البتہ روایات  میں ہر ادنی جنتی کےلیے 72 حوروں کا تذکرہ موجود ہے۔ نیز جنت میں حور وں کا ہونا قرآن مجید اور احادیث سے ثابت ہے لہذا اس کا انکار کرنے سے  قرآنی آیت کا انکار کرنا لازم آتا ہے جو کہ کفر ہے۔ 

حادی الارواح الی بلاد الافراح میں ہے:

"قال الطبراني وحدثنا احمد بن يحيى الحلواني حدثنا سويد بن سعيد حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه عن خالد بن معدان عن أبي أمامة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل: أيجامع أهل الجنة قال: "دحا دحا ولكن لا مني ولا منية" ۔۔۔۔۔عن سعيد بن جبير أن شهوته لتجري في جسده سبعين عاما يجد اللذة ولا يلحقهم بذلك جنابة فيحتاجون إلى التطهير" 

(الباب الخامس والخمسون: في ذكر نكاح أهل الجنة ووطئهم والتذاذهم بذلك أكمل لذة ونزاهة ذلك عن المذي والمني والضعف وأنه لا يوجب غسلا، ص:239، 240، ط:مطبعة المدنى)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(مطهرة) نعت للأزواج. ومطهرة في اللغة أجمع من طاهرة وأبلغ، ومعنى هذه الطهارة من الحيض والبصاق وسائر أقذار الآدميات. ذكر عبد الرازق قال أخبرني الثوري عن ابن أبي نجيح عن مجاهد:" مطهرة" قال: لا يبلن ولا يتغوطن ولا يلدن ولا يحضن ولا يمنين ولا يبصقن".

(سورة البقرة، ج:1، ص:237، ط:دار الكتب المصرية)

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن أبي قرصافة أنه سمع النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول: ابنوا المساجد وأخرجوا القمامة منها، فمن بنى لله مسجدا بنى الله له بيتا في الجنة  فقال رجل: يا رسول الله وهذه المساجد التي تبنى في الطريق؟ قال:  نعم، وإخراج القمامة منها مهور الحور العين".

(كتاب الصلاة، باب بناء المسجد، ج:2، ص:9، ط:مكتبة القدسى)

المعجم الاوسط للطبرانی میں ہے:

"عن عطية بن قيس الكلابي قال: خطب معاوية بن أبي سفيان أم الدرداء بعد وفاة أبي الدرداء، فقالت أم الدرداء: إني سمعت أبا الدرداء يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أيما امرأة توفي عنها زوجها، ‌فتزوجت ‌بعده ‌فهي ‌لآخر ‌أزواجها".

(باب الباء، من اسمه بكر، ج:3، ص:275، ط:دار الحرمين)

المعجم  الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن أم سلمة، قالت: قلت يا رسول الله أخبرني عن قول الله {حور عين} [الواقعة: ٢٢] ، قال: " حور: بيض، عين: ضخام العيون شقر الجرداء بمنزلة جناح النسور "،  ۔۔۔۔۔ قلت: ‌يا ‌رسول ‌الله ‌المرأة ‌منا ‌تتزوج ‌الزوجين ‌والثلاثة ‌والأربعة ‌ثم ‌تموت ‌فتدخل ‌الجنة ويدخلون معها من يكون زوجها؟، قال: " يا أم سلمة إنها تخير فتختار أحسنهم خلقا فتقول: أي رب إن هذا كان أحسنهم معي خلقا في دار الدنيا فزوجنيه، يا أم سلمة ذهب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرة ".

(مسند النساء، ج:23، ص:367، ط:مكتبة ابن تيمية)

التنویر شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"(أيما امرأة توفي عنها زوجها فتزوجت بعده فهي) أي في الآخرة (لآخر أزواجها) قالوا إن هذا أحد الأسباب المانعة للتزوج بنسائه - صلى الله عليه وسلم - لأنهن زوجاته في الجنة. واعلم أنه قد ورد أنه لأحسنهم أخلاقا كما في حديث عائشة رضي الله عنها فيحتمل أن المراد هنا إذا كانت أخلاقهم متساوية فتبقى لآخره وفي الآخر إذا اختلفوا فهي لأحسنهم خلقا" 

(حرف الهمزة، ج:4، ص:448، ط:مكتبة دار السلام)

حادی الارواح میں ہے:

"والأحاديث الصحيحة إنما فيها إن لكل منهم زوجتين وليس في الصحيح زيادة على ذلك فإن كانت هذه الأحاديث محفوظة فإما أن يراد بها ما لكل واحد من السراري زيادة على الزوجتين ويكونون في ذلك على حسب منازلهم في القلة والكثرة كالخدم والولدان وإما أن يراد أنه يعطي قوة من يجامع هذا العدد ويكون هذا هو المحفوظ فرواه بعض هؤلاء بالمعنى فقال له كذا وكذا زوجة".

(الباب الثالث والخمسون: في ذكر نساء أهل الجنة وأصنافهن وحسنهن وأوصافهن وجمالهن الظاهر والباطن الذي وصفهن الله تعالى به في كتابه، ص:232، ط:دار الكتب المصرية)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أدنى أهل الجنة الذي له ثمانون ألف خادم واثنتان وسبعون زوجة، وتنصب له قبة من لؤلؤ وزبرجد وياقوت كما بين الجابية إلى صنعاء".

(ابواب صفة الجنة، باب ما جاء ما لأدنى أهل الجنة من الكرامة، ج:4، ص:695، ط:مصطفي البابي الحلبى)

البحر الرائق میں ہے:

"ويكفر إذا أنكر آية من القرآن أو سخر بآية منه إلا المعوذتين ففي إنكارهما اختلاف".

(كتاب السير، باب احكام المرتدين، ج:5، ص:131، ط:دار الكتاب الاسلامى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں