بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حورم نام رکھنا


سوال

کیا میں اپنی بیٹی کا نام حورم رکھ سکتی ہوں ؟

جواب

اصل لفظ حور ہے (حاء کے پیش کے ساتھ)اور لفظ حور کے معنی میں تین احتمال ہیں:

۱۔"أَحْوَر "(مذکر صفت) کی جمع ہو۔

۲۔"حَوْرَاء"(مؤنث صفت کی جمع ہو)، اس اعتبار سے اس کا معنیٰ ہیں: سفید رنگت والی عورتیں،"  حور" جنت کی عورتوں  کو کہتے ہیں۔ لیکن" حُوْر" مفرد نہیں، بلکہ جمع ہے۔ 

۳۔"حُوْر"(مفرد اسم) ہو، اس کا معنیٰ ہے: نقصان، اور ہلاکت۔

خلاصہ یہ ہے کہ صرف لفظ حور نام رکھ سکتے ہیں لیکن میم کے ساتھ حورم اس کا استعمال نہیں ہوتا اس کے بجائے بچی کا نام صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھنا باعث ِ خیر و برکت ہو گا۔

معجم اللغۃ المعاصرۃ میں ہے:

‌"حُور [جمع]: مف حَوراءُ: نساء الجنّة " {‌حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ} ."

" ‌حُور عين: نساءٌ بيض أو شديدات بياض العين مع شدّة سواد الحدقة، أو نساء واسعات العين مع شدّة بياض لبياضها وسوادٍ لسوادها " {مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ} "

"أَحْوَرُ [مفرد]: ج ‌حُور، مؤ حَوراءُ، ج مؤ ‌حُور: صفة مشبَّهة تدلّ على الثبوت من ‌حوِرَ۔"

(جلد ۱ ص : ۵۷۸،۵۷۹  ط : عالم الکتب )

معجم الوسیط میں ہے:

"(الحور) النقص والهلاك ويقال إنه في ‌حور وبور في غير صنعة ولا إجادة أو في ضلال والباطل في ‌حور في نقص وتراجع وجمع حوراء۔"

(باب الحاء جلد ۱ ص : ۲۰۵ ط : دارالدعوۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں