بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حورب، مرحا، ارحہ اور میرب نام رکھنے کا حکم


سوال

’’حورب‘‘، ’’مرحا‘‘، ’’ارحہ‘‘ اور ’’میرب‘‘ میں سے کون سا نام رکھنا درست ہے؟ مہر بانی فرما کر اصلاح کریں۔

جواب

1۔’’حورب‘‘:عبرانی زبان کا لفظ ہے اور "حورب" اس پہاڑ کا نام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ شریعت دی گئی تھی جس کا دوسرا اور مشہور نام "سیناء" ہے،بطور تبرک یہ نام رکھ سکتے ہیں۔

 2۔’’مرحا‘‘:عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے تلفظ کے دو طریقے ہیں:

۱۔  "مَرَ حا"را پر زبر کے ساتھ،  اس کا مطلب ہے" تکبر کرنا"، اس معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

۲۔ "مَرْحیٰ" (را ساکن)  عربی میں یہ لفظ دو صیغے بن سکتاہے:

۱- ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ )’’مَرِح‘‘ کی جمع بھی ہے، مرح کا معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) آتا ہے،یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

۲- ’’مَرحیٰ‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبرکے ساتھ)  تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح   خوشی سے جھومنا، اور چکی کا پاٹ بھی اس کے معنی ہیں، اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز تو ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا وہم برقرار رہے گا؛ اس لیے نہ رکھنا ہی مناسب ہے۔

3۔’’ارحہ‘‘ :اس تلفظ کے ساتھ  عربی میں مستعمل نہیں ،البتہ ’  ’اَرحاء‘‘  (الف پر زبر کے ساتھ۔أَرْحَاءُ) "  یہ عربی زبان کا لفظ ہے، اور جمع کے طور پر مستعمل ہے۔اس کی واحد  " رَحیٰ" ہے، جس کے معنی چکی اور داڑھ کے ہیں، نیز اس کے اندر کسی چیز کو گھمانے کا معنی بھی ہے،  نام رکھنے کے لیے لفظ مناسب نہیں۔  

4۔"میرب" :عربی زبان میں"ارب" سے ماخوذ ہے، اس کے ماخذ کے اعتبار سے اس کے مختلف معانی ہوسکتے ہیں: جسم کاٹنے کا آلہ، حاجت پوری کرنے کا آلہ، ہوشیار اور ماہر۔

اگر بچی کا نام رکھنا ہے تو بہتر ہے کہ میرب کی بجائے "اَریبہ" نام رکھ لیا جائے اور لڑکے کا نام رکھنا ہے تو "اریب" نام رکھ لیں، اس صورت میں معنیٰ متعینہ طور پر "ہوشیار" اور "ماہر" ہوگا۔

بہرحال بہتر یہ ہے کہ اپنے بچوں کے نام انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کے نام پر رکھے جائیں یا ایسا نام رکھیں جس کے معنی اچھے ہوں،بچے اور بچیوں کے اسلامی نام معنی کے ساتھ حروفِ تہجی کی ترتیب پر ہماری ویب سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں،لنک ملاحظہ ہوں :

اسلامی نام

المغرب فی ترتیب المعرب میں ہے:

"رحي"  الرَّحى مؤنث وتثنيتُها رحَيان والجمع أرحاءُ وأَرْحٍ وأنكر أبو حاتم الأَرْحِية. وقوله: ما خلا الرَحَى أي وَضْعَ الرحى وتستعار، الأرحاء للأضراس وهي اثنا عشَر".

(ج:1،ص325،/ مصباح اللغات ،ص:285،ط:قدیمی)

تاج العروس میں ہے:

"(مرح، كفرح: أشر وبطر) ، والثلاثة ألفاظ مترادفة، ومنه قوله تعالى: {بما كنتم تفرحون فى الارض بغير الحق وبما كنتم تمرحون} (غافر: 75) وفي المفردات: المرح: شدة الفرح والتوسع فيه.

(و) مرح (: اختال) ، ومنه قوله تعالى: {ولا تمش فى الارض مرحا} (الإسراء: 37) أي متبخترا مختالا.(و) مرح مرحا: (نشط) . في (الصحاح) و (المصباح) : المرح: شدة الفرح، والنشاط حتى يجاوز قدره، (و) مرح مرحا، إذا خف، قاله ابن الأثير. وأمرحه غيره. (والاسم) مراح، (ككتاب، وهو مرح) ، ككتف (ومريح، كسكين، من) قوم (مرحى ومراحى) ، كلاهما جمع مرح.....(ومرحى) مر ذكره (في برح) قال أبو عمرو بن العلاء: إذا رمى الرجل فأصاب قيل: مرحى له، وهو تعجب من جودة رميه. وقال أمية بن أبي عائذ:يصيب القنيص وصدقا يقول مرحى وأيحى إذا ما يوالي وإذا أخطأ قيل له: برحى.(و) مرحى: (اسم ناقة عبد الله بن الزبير)".

(فصل الميم مع الحاء المهملة،ج:117،113،ص:7،ط:دار الهداية)

وفيه أيضا:

"(وبرحى) ، على فعلى (: كلمة تقال عند الخطإ في الرمي، ومرحى عند الإصابة) ، كذا في (الصحاح) . وقد تقدم في أي ح أن أيحى تقال عند الإصابة. وقال ابن سيده: وللعرب كلمتان عند الرمي: إذا أصاب قالوا: مرحى، وإذا أخطأ قالوا: برحى".

(باب الحاء المهملة،فصل الباء مع الحاء المهملة،ج:6،ص:311،ط:دار الهداية)

المعجم الوسيط ميں هے:

"(أرب) العضو أربا قطع أو سقط من الجذام ونحوه ويقال منه أرب فلان وبالشيء كلف به ولزمه وفي الشيء وبه درب وصار ماهرا بصيرا وعليه بكذا قوي واستعانو وإليه احتاج وافتقر فهو أرب وأريب

(أرب) أرابة وإربا كان ذا دهاء وفطنة فهو أريب

(آرب) عليه إيرابا فاز وفلانا مؤاربة باراه وغالبه في الدهاء ونحوه يقال هو يؤارب أخاه ويقال مؤاربة الأريب جهل وعناء

(أرب) شح وحرص والشيء أربه ووفره وكمله والذبيحة قطعها إربا إربا والعضو قطعه كاملا وفلانا جعله أريبا".

(باب الهمزة،ج:1،ص:12،ط:دار الدعوة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں