بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حقوقِ مجردہ کی فروخت


سوال

ایک دوکان دار ہے، اس نے دکان کھولی اور دکان کو کافی شہرت حاصل ہوئی ہے، اب وہ اس دکان کو سامان کے ساتھ آگے بیچنا چاہتا ہے، اس شخص نے دکان میں موجود سامان کی قیمت 900000 (نو لاکھ) روپے  مقرر کی ہے، اور 150000(ڈیڑھ لاکھ) روپے ٹھکانے کی مقرر کی ہے، پوچھنایہ ہے کہ کیا ٹھکانے  کی بیع جائز ہے؟

جواب

محض دکان کے نام اور شہرت کے عوض میں مذکورہ دکاندار کا سامان خریدنے والے شخص سے رقم لینا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اگر یہ دکاندار اپنے سامان کی قیمت  کچھ زائد مقرر کردیتا ہے اور اس قیمت پر خریدار لینے پر راضی ہو تو  یہ جائز ہے۔

یہ جواب اس صورت میں ہے جب آپ کا مقصود ٹھکانے سے دکان کی شہرت ہو، جیساکہ آپ کے سوال کے ابتدائی حصے سے معلوم ہوتاہے۔ اور اگر سوال میں ٹھکانے سے مقصود جگہ ہے، اور وہ جگہ اس دکاندار کی ذاتی ہو اور اس جگہ کی قیمت الگ سے لگاکر اور سامان کی قیمت الگ سے مقرر کرکے فروخت کرنا چاہتا ہے، تو یہ صورت جائز ہے۔

اگرمقصود کچھ اور ہے تو وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال لکھ کر دریافت فرمالیں۔

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’گڈول یعنی ’’نام‘‘ درحقیقت مال نہیں،  بلکہ بمنزلہ حیثیت عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جو بھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے‘‘۔ (فتاوی محمودیہ 16/178)

امدادالاحکام میں ہے:

’’محض اس قانون کے مشہور ہونے سے قرض خواہوں کا حق عنداللہ ساقط نہ ہوگا اور حقوقِ گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوقِ گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً  قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوقِ گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے‘‘۔ (4/452مکتبہ دارالعلوم کراچی)

الاشباہ والنظائر میں ہے :

’’الحقوق المجردة لايجوز الاعتياض عنها ‘‘. (1/212)

فتاوی شامی میں ہے :

’’وفيها: وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف‘‘. (4/518)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں