بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

حقوق کی خرید و فروخت درست نہیں


سوال

برنس روڈ گلی نمبر:2 میں میں نے کھانے کا ایک چھوٹا سا کیبن بنایا تھا اور عرصہ دراز تک میرا معذور بھائی وہاں پر کھانا وغیرہ بناکر فروخت کیا کرتا تھا۔ اب ہم اس کیبن کو بیچنا چاہتے ہیں، آیا اس کیبن کو بیچنا ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟ کسی نے ہمیں یہ کہا ہے کہ اس کیبن کی خرید و فروخت جائز نہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی آپ کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

وضاحت فرما دیجیے کہ شرعی اعتبار سے اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے؟ اور ہم اس کیبن کو فروخت کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کیبن اگر آپ کی ذاتی ملکیت ہے تو آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں، اس کی خرید و فروخت میں شرعًا کوئی قباحت نہیں، مذکورہ کیبن کی کمائی بھی حلال ہے، 

باقی برنس روڈ کے جس مقام میں یہ کیبن موجود ہے اور KMC یا متعلقہ ادارے کی اجازت سے وہاں لگایا گیا ہے تو کیبن کی وہ جگہ چونکہ آپ کی ملک نہیں، بلکہ حقوق میں داخل ہے اور حقوق کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے؛ اس لیے آپ کا اس جگہ کے عوض کچھ بھی لینا جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"اعلم أن ‌أسباب ‌الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد لا لجفاف على المباح الخالي عن مالك."

(كتاب الصيد، ج:6، ص:463، ط: ايج ايم سعيد كراتشي)

وفيه أيضاً:

"وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف."

(کتاب البیوع، ج:4، ص:518، ط:ایج ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الاعتياض عن حق الغير لا يصح ولا يجري فيه الإرث؛ لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل."

(کتاب الحدود، فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، ج:7، ص:57، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612101211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں