بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوپ اسٹیک سے منسلک ہونے کا حکم


سوال

1۔  ایک کمپنی ہے  ہوپ  اسٹیک  (Hope stake)  ان کا کہنا ہے کہ   آپ ہم سے چار ماہ کے لیے اشیاء خورد و نوش خرید لو،  تو ہم آپ کو پانچویں مہینہ کا راشن مفت میں دیں گے،  اور یہ ہماری طرف سے گفٹ ہو گا۔یہ صورت جائز ہے کہ نہیں ؟

2۔ دوسری بات  یہ  ہے کہ آپ متعین  حد تک کی خریداری کریں گے، تو آپ اپنے توسط سے    دوسرے کسٹمرز بھی  ہمارے پاس لانے کے اہل ہوں گے،  پس آپ  کے توسط سے جتنے کسٹمرز  مذکورہ کمپنی  سے خریداری کرکے منسلک ہوں گے، تو ہم آپ کو متعین کمیشن   دیں گے، وہ   کمیشن پہلے سے طے کرتے ہیں، کہ ہم آپ کو اتنا دیں گے ، کیا کسٹمرز  بنانے پر کمیشن  لینا جائز  ہے ؟

3۔ تیسری  بات یہ ہے کہ اگر ہمارے لائے کسٹمرز  اور بندوں کو بھی مذکورہ کمپنی کا کسٹمرز بناتے ہیں، تو کمپنی ان کا بھی کمیشن  ہمیں دے گی،  کیا ہمارے  لیے کسٹمرز در کسٹمرز  در کسٹمرز کا کمیشن لینا جائز ہوگا؟

جواب

1۔کسی کمپنی کی جانب سے مشہوری یا  خریداروں  کی توجہ حاصل کرنے کے لیے  خاص مقدار میں کسی چیز کی خریداری پر ایک یا ایک سے زائد اشیاء  مفت دی جائے،  تو اس میں شرعاً  کوئی قباحت نہیں، مفت ملنی والی چیز کمپنی کی جانب سے شرعًا  تحفہ شمار ہوگی؛  لہذا صورتِ مسئولہ میں  چار ماہ تک اشیائے خورد و نوش کی خریداری  پر   پانچویں مہینے گفٹ کے طور پر  اشیائے خورد و نوش مذکورہ کمپنی کی جانب سے دی جائے اس کے علاوہ اور کوئی قابل قباحت چیزشامل نہیں تو کمپنی کا اس طرح    دینا تبرع و احسان ہوگا، جسے وصول کرنے کے بعد  استعمال میں لانا جائز ہوگا۔

مجلة الأحكام العدليةمیں ہے:

"(المادة ٢٥٤) للبائع أن يزيد مقدار المبيع بعد العقد فالمشتري إذا قبل في مجلس الزيادة كان له حق المطالبة بتلك الزيادة ولا تفيد ندامة البائع وأما إذا لم يقبل في مجلس الزيادة وقبل بعده فلا عبرة بقبوله مثلا لو اشترى عشرين بطيخة بعشرين قرشا ثم بعد العقد قال البائع أعطيتك خمسا أخرى أيضا فإن قبل المشتري هذه الزيادة في المجلس أخذ خمسا وعشرين بطيخة بعشرين قرشا وأما لو لم يقبل في ذلك المجلس بل قبل بعده فلا يجبر البائع على إعطاء تلك الزيادة."

(الباب الرابع: في بيان المسائل المتعلقة في الثمن والمثمن بعد العقد، الفصل الثاني: في بيان التزييد والتنزيل في الثمن والمبيع بعد العقد، ص: ٥٢، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

2۔ 3۔ سائل نے جو طریقہ ذکر کیا ہے، اسے نیٹ ورک مارکیٹنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے،  جس میں اپنی مصنوعات  فروخت  کرنا اصل مقصد نہیں ہوتا، بلکہ ممبر سازی کے ذریعے  کمیشن در کمیشن کاروبار چلانا   مقصود ہوتا ہے جو  کہ جوئے کی ایک نئی شکل ہے۔   جس  کی تفصیل یہ  ہے کہ جیسے جوئے میں پیسے لگاکر  یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے کچھ نہ ملے اور یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے بہت  سارے  پیسے  مل جائیں، بالکل اسی  طرح نیٹ ورک مارکیٹنگ کے طرز پر کام کرنے والی کمپنیوں سے منسلک ہونے کے بعد کام کرنے میں یہ امکان بھی ہوتا ہے  کہ ممبر کو  انفرادی طور پر مطلوبہ ٹارگٹ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے کچھ بھی نہ ملے،  اور یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ اسے مقررہ  ٹارگٹ  انفرادی طور پر اور ٹیم کی شکل میں پورا کرنے  کی وجہ سے بہت کچھ مل جائے، جو کہ جوئے کی ہی شکل ہے،   نیز نیٹ ورک مارکیٹنگ میں دوسری قباحت  یہ ہے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں کمیشن کو مستقل تجارتی  حیثیت دی گئی ہے، جب کہ شریعت مطہرہ میں کمیشن  کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، نیز شریعت مطہرہ نے کمیشن ایجنٹ  کی اجرت (کمیشن )  کو  اس  کے اپنے کام کے ساتھ  مشروط  کیا ہے، استحقاق  اجرت (کمیشن)  کو  کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں کیا ہے ،  جب کہ ملٹی لیول  مارکیٹنگ (نیٹ ورک مارکیٹنگ) کے طریقہ پر کام کرنے والی کمپنیوں میں ہر ممبر کی اجرت دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے ،  یعنی ہر ممبر اپنے ماتحت  ممبر  بنانے کا پابند ہوتا ہے،  اسی طرح ہر ذیلی ممبر  بھی اپنے ما تحت ممبر سازی کرتا ہے،   یوں ممبر در ممبر  بنے کی وجہ سے کی پیرامڈ (مخروطی )  شکل بن جاتی ہے،  اور ہر نو وارد ذیلی ممبر کی آمد پر کمیشن تناسب کے حساب سے سب سے پہلے ممبر تک تقسیم کیا جاتا ہے، جو کہ شرعاً جائز نہیں۔   

    لہذا صورتِ مسئولہ  میں ہوپ اسٹیک  نامی کمپنی سے وابستہ  ہونا جائز نہیں ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن ‌القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارًا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ٦ / ٤٠٣، ط: دار الفكر)

أحکام القرآن للجصاص  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".     

(باب تحریم المیسر، سورة البقرۃ، ١ / ٣٩٨، ط: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال

 [تتمة]قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه ."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ٦ / ٦٣، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا:

" وأما أجرة السمسار والدلال فقال الشارح الزيلعي: إن كانت مشروطة في العقد تضم، وإلا فأكثرهم على عدم الضم في الأول، ولا تضم أجرة الدلال بالإجماع اهـ. وهو تسامح فإن أجرة الأول تضم في ظاهر الرواية والتفصيل المذكور قويلة، وفي الدلال قيل لا تضم والمرجع العرف كذا في فتح القدير اهـ."

(كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، ٥ / ١٣٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510101532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں