حوریں نام رکھنا ٹھیک ہے؟
’’حُوْرین‘‘ (’ح‘ کے ضمہ کے ساتھ) لفظ ’’حُوْر‘‘ کی تثنیہ یا جمع ہوسکتا ہے، اور لفظِ ’’حُوْر‘‘ میں تین احتمال ہیں:
1- ’’أَحْوَر‘‘ (مذکر صفت) کی جمع ہو۔ اس اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں۔
2- ’’حَوْرَاء‘‘ (مؤنث صفت کی جمع ہو)، اس اعتبار سے اس کا معنیٰ ہیں: سفید رنگت والی عورتیں، ’’حور‘‘ جنت کی عورتوں کو کہتے ہیں۔ لیکن ’’حُوْر‘‘ مفرد نہیں، بلکہ جمع ہے۔ ان دونوں احتمالات (’’أَحْوَر‘‘کی جمع ہو یا ’’حَوْرَاء‘‘ کی) کے اعتبار سے ’’حُوْر‘‘ کی تثنیہ یا جمع ’’حُوْرین‘‘ درست نہیں ہے۔
3- ’’حُوْر‘‘ (مفرد اسم) ہو، اس کا معنیٰ ہے: نقصان، اور ہلاکت۔
خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے، اس کے بجائے بچی کا نام صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھنا چاہیے۔
لسان العرب میں ہے:
"أبو عمرو: الحور التحير، والحور: الرجوع. يقال: حار بعد ما كار. والحور: النقصان بعد الزيادة لأنه رجوع من حال إلى حال. وفي الحديث: نعوذ بالله من الحور بعد الكور؛ معناه من النقصان بعد الزيادة، وقيل: معناه من فساد أمورنا بعد صلاحها، وأصله من نقض العمامة بعد لفها، مأخوذ من كور العمامة إذا انتقض ليها وبعضه يقرب من بعض، وكذلك الحور، بالضم."
(فصل الحاء المهملة، ج4 ص217، دار صادر)
و فیہ:
"وقال الأصمعي: لا أدري ما الحور في العين وقد حور حورا واحور، وهو أحور. وامرأة حوراء: بينة الحور. وعين حوراء، والجمع حور."
(فصل الحاء المهملة، ج4 ص219، دار صادر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502100257
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن