ھود علیہ السلام کو قوم عاد کا بھائی کیوں کہا گیا؟ اس میں کیا حکمت تھی؟
بھائی سے نسبی بھائی مراد ہے، یعنی وہ اپنی قوم میں سے ہی ایک فرد تھے،حقيقی بھائی مراد نہیں ،اللہ تعالی نے مختلف قوموں کی طرف جو انبیاء مبعوث فرمائے وہ عموماً انہیں میں سے ہوتے تھے، اس میں ایک حکمت یہ تھی کہ وہ اپنی قوم کی زبان و بیان سے واقف ہوتے ، بات سمجھانے میں اور فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی میں آسانی ہوتی،اس میں دوسری حکمت یہ تھی جب کسی قوم میں سے کسی برگزیدہ شخصیت کو اللہ تعالی منصب نبوت پر فائز کرتے تو چوں کہ نبی کا رہن سہن اسی قوم میں ہوتا اوروہ نبی کی اعلی سیرت اور کریمانہ اخلاق سے واقف ہوتے، اور انبیاءعلیہم السلام کے شریفانہ کردار کی وجہ سےلوگوں میں اُن کی وجاہت اور ان کی بات کا اثر ہوتا تھا جس کی وجہ سے کسی کو ان کے کردار پر انگلی اٹھانے کی جسارت نہ ہوتی، اور اُن کی بات کو قبول کرنا آسان ہوتا،الله تعالی كے كاموں ميں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی حکمتیں ہوسکتی ہیں،جن کے احاطے سے انسانی عقل قاصر ہے۔
روح المعاني میں ہے:
"قال لهم: أخوهم نوح أي نسبیهم كما يقال: يا أخا العرب ويا أخا تميم، وعلى ذلك قوله:
لا يسألون أخاهم حين يندبهم … في النائبات على ما قال برهانا
والضمير لقوم نوح، وقيل: هو للمرسلين والأخوة المجانسة وهو خلاف الظاهر."
(سورة الشعراء،الآية : 106،ج:10،ص:104،ط:العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100369
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن