بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال کا حکم


سوال

کیا ہومیو پیتھک ادویات کا استعمال جائز ہے ؟ جب کہ اس کا تیاری کا طریقہ کار کچھ یوں کہ اصل مادے کو (جس سے دوائی بنتی ہے ) کو 1 : 1 یعنی ہم وزن تناسب سے الکحل میں ایک ہفتے کے لیے رکھ دیتے ہیں ،یہ اس دوا کی زیرو یا Q پوٹینسی ہوگئی اور پھر اسی دوا کو 1 : 9 تناسب سے الکحل (یعنی ایک حصہ اس دوا کا اور 9 حصے الکحل کے) میں potentise یا تحلیل کرتے ہیں ،تو یہ اس کا 1x پاور یا پوٹینسی ہوگیا ،پھر اسی 1x پوٹینسی دوا کو پھر 1 : 9 تناسب سے الکحل میں تحلیل کرتے ہیں اور اسی طرح کرتے کرتے 30 طاقت پھر 200 ، 1000 , 10000 اور 100000 طاقت تک تیار کیا جاتا ہے اور یہاں تک پہنچنے میں اصل مادہ تقریبا ختم ہوجاتا ہے جس کی صرف توانائی ہی رہ جاتی ہے ۔

یاد رہے ان میں ایسے ادویات بھی ہوتی ہیں جو کہ سانپ ، بچھوں ، کینسر،  تیزابوں اور پودوں کے زہر سے تیار کی جاتی ہیں  اور یہ بھی یاد رہے کہ الکحل ملانے کا مقصد صرف اور صرف دوا کو دیرپا محفوظ رکھوانا ہے اور مادے کو اچھی طرح سے تحلیل کروانا ہے جو کہ اسی فیلڈ میں کسی دوسرے مائع کو یہ شرف حاصل نہیں اور اس دوا میں دیگر نشوں کی طرح کسی قسم کا نشہ بھی نہیں ہوتا ، ان ادویات کے فوائد  یہ ہیں کہ  ان کا اثر انسان کے اندر جتنے بھی منفی رویے ہوتے ہیں، مثلا منفی سوچ، تکبر، حسد، فحاشی، ڈپرشن، انگزائٹی، بے جا خوف، پاگل پن، جنون، مشت زنی، سادگی، عقل کی خبطی، وہم، بد حواسی اور نہ جانے سینکڑوں ہزاروں بیماریوں کی مستقل علاج کی طاقت کی اہلیت رکھتا ہے اور ان ادویات کاانگریزی ادویات کی طرح کوئی سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہوتا ۔

اب سوال یہ ہے کہ:

1. کیا ان ادویات کا استعمال جائز ہے؟

2. کیا ان ادویات کا استعمال محض اپنے جسم کو طاقت بخشنے یا جسمانی حسن مثلا بالوں کے لیے یا رنگ گورہ کرنے  کے لیے یا ذہنی حالات کو خوشگوار اور خوش و خرم رکھنے  کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

3. ان کا استعمال مندرجہ بالا ذہنی امراض کو دفع کرنے  کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

4. کیا یہ  الکحل کی وجہ سےشراب کے زمرے میں آتا ہے ؟

5. کیا ان کی زیرو پوٹینسی استعمال کی جا سکتی ہے اصل مادہ موجود ہونے کی وجہ سے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ وہ الکحل جسے انگور، کشمش، منقی، یا کھجور  کے شیرہ سے کشید کر  بنایا گیا ہو، اسے اصطلاح شرع میں خمر کہا جاتا ہے،  جس کی قلیل و کثیر مقدار دونوں حرام ہے، لہذا اگر مذکورہ بالا چاروں اشیاء  میں سے کسی بھی چیز سے بنائی گئی الکحل کا  اختلاط  اگر کسی بھی حلال و پاک چیز میں ہوجائے، تو وہ چیز بھی نجس و حرام ہوجاتی ہے، البتہ جو الکحل مذکورہ بالا چاروں اشیاء سے  نہ  حاصل نہ کی گئی ہو، بلکہ دوسرے پھلوں ، اناج، لکڑی آرٹیفیشل  مائعات سے تیار کی گئی ہو، اس کے ناجائز ہونے کا مدار نشہ آور ہونے پر ہے، پس ایسی الکحل جب تک نشہ آور نہ ہوجائے،  اس وقت تک  اس کا استعمال  جائز ہوتا ہے،  پس  معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور مشروب یا ہر الکحل کو عربی زبان اور شرعی اصطلاح میں  "خَمْر" (شراب) نہیں کہتے،  بلکہ شراب سے مراد وہ خاص مشروب ہے جو انگور، کشمش، کھجور یا منقی سے کشیدہ کیا گیا ہو۔ اور موجودہ دور میں دواؤں اور دیگر اشیاء میں جو الکحل استعمال کیا جاتاہے بنیادی طور پر وہ دو حیثیتوں کا حامل  ہے:

1- انگور، کشمش، کھجور، منقی سے بنا  الکحل۔

2- دیگر پھلوں، اناج، لکڑی یا کیمیکل سے بنا الکحل۔

لہذا جو  الکحل انگور، کشمش،  منقی، یا کھجور  کی شراب سے حاصل کیا جائے وہ الکحل  نہ صرف حرام  ہے، بلکہ نجس بھی ہے اور دوسری مائعات وغیرہ کو بھی نجس کردیتا ہے،  کیوں  کہ اس قسم کا الکحل شراب ( خمر) کا جزء ہوتا  ہے، یعنی اس کا ماخذ شراب ہے اور شراب  میں دونوں عیب ( حرام و نجس ہونا)  پائے جاتے ہیں، لہذا جو حکم اصل  یعنی شراب ( خمر) کا حکم ہوگا، وہی حکم اس شراب کے ہر ہر جز کا ہوگا،  یعنی ایسا الکحل  ہاتھ، کپڑے، یا کسی پاک چیز  پر لگنے کی صورت میں وہ اسے  ناپاک کردے گا اور اس کا پینا حرام ہوگا چاہے وہ نشہ آور ہو یا نہ ہو۔

جو الکحل انگور، کشمش ، منقی ، یا کھجور کے علاوہ کسی دوسری شے سے حاصل کیا جائے (مثلاً گنے کے شیرے Molasses سے) تو اس کا پینا نشہ  آور ہونے کی وجہ سے حرام  گا، البتہ ایسا الکحل نجس شمار نہیں ہوگا، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کا ماخذ  انگور، کشمش،  منقی، یا کھجور کے علاوہ ہے،  اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں  خمر کی تعیین  کر کے اسے حرام اور  رجس (نجس)  قرار دیا ہے، اور خمر انگور اور کھجور کی شراب کو کہتے ہیں۔ پس جو  الکحل مصنوعی طریقہ سے یا انگور ، کشمش،  منقی و کھجور کے علاوہ سے   حاصل کی گئی ہو ، اس کا پینا نشہ آور ہونے کی صورت میں تو  حرام ہو گا،  تاہم  اس کی معمولی مقدار نشہ آور نہ ہونے کی وجہ سے ناپاک نہیں کہلائے گی، بلکہ پاک قرار پائے گی، اور کسی بھی پاک چیز سے ملنے کی وجہ سے اسے نجس بھی نہیں کرے گی۔

موجودہ دور میں جو الکحل ہومیوپیتھک،  و انگریزی  دوائیوں میں شامل کی جاتی ہے، وہ یہی دوسری قسم کا الکحل ہوتا ہے، جوکہ نجس نہیں بلکہ پاک ہے۔

1۔ ہومیوپیتھک ادویات کا استعمال جائز ہے۔

2۔ان ادویات کا استعمال محض اپنے جسم کو طاقت بخشنے یا جسمانی حسن مثلا بالوں  کے لیے یا رنگ گورہ کرنے  کے لیے یا ذہنی حالات کو خوشگوار اور خوش و خرم رکھنے  کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

3۔ ان کا استعمال ذہنی امراض کو دفع کرنے کے لیے  کرسکتے ہیں۔

4۔ یہ ادویات شراب کے زمرے میں داخل نہیں۔

5۔ ایسی ادویات  نشہ آور نہ ہونے کی صورت میں استعمال  کرسکتے ہیں۔

البتہ اگر کسی دوا کے بارے میں قطعی طور پر ثابت ہوجائے کہ اس میں جس الکحل کی آمیزش کی گئی ہے، وہ انگور، کشمش،  منقی،  یا کھجور کے شیرہ سے بنائی گئی ہے، ایسی ادویات کا عمومی استعمال ناجائز ہوگا، تاہم اگر کوئی ایسا  مرض لاحق ہوجائے، کہ جس کا علاج ایسی دوا کے بغیر ممکن ہی نہ ہو تو اس صورت میں بطور علاج ایسی دوا کھانا جائز ہوگا۔

کفایت المفتی میں ہے:

’’ہو میو پیتھک دواء کا استعمال جائز ہے.

(سوال ) اکثر لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ ناسور کے لئے ہو میو پیتھک کے ڈاکٹر تین چار ماہ کے لئے کھانے کی دوا دیتے ہیں جس سے مریض کو بالکل شفا ہو جاتی ہے لیکن ان دونوں میں اکثر کوئی نہ کوئی نشے کی آمیزش ہوتی ہے آیا شرعا ان دونوں کے استعمال کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں ؟ المستفتی مولوی عبد الرؤف خاں جگن پور ضلع فیض آباد

جواب (١٧٥) ہومیو پیتھک دواؤں میں اگر اسپرٹ یا اور کوئی نشہ آور دوائی شامل ہو تاہم علاج کے لئے ان کا استعمال جائز ہے کیونکہ سوائے انگور کی شراب کے جو خمر ہے اور شرابیں ناپاک نہیں ہیں،  نشہ آور ہونے کی وجہ سے حرام تو ہیں، مگر ناپاک نہیں تو ان کی اتنی مقدار جو نشہ آور نہ ہو علاج کے لئے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔‘‘ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ

( کتاب الحظر والإباحة،  ٩ / ١٥٣، ط: دار الاشاعت)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع."

(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

" [فروع] اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى.

مطلب في التداوي بالمحرم:

 (قوله: اختلف في التداوي بالمحرم)  ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله - عليه الصلاة والسلام - «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل."

( باب المياه، فروع التداوي بالمحرم، ١ / ٢١٠، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100286

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں