بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

حکومتی زمین استعمال کرنے کا حق آگے کرایہ پر دینا یا بیچنا


سوال

ہمارے علاقے کے مین شہر میں روڈ کے آس پاس  حکومتی  زمین ہے ، اور عوام الناس اس زمین سے استفادہ کرتے ہیں مثلاً لوگ اس جگہ پر ریڑھی کھڑی کرتے ہیں  اور حکومت نے اجازت بھی دی ہے ،حکومت لوگوں سے کوئی  کرایہ نہیں لیتی ،اور  ہر ایک کو کاغذی کاروائی کے ساتھ معین جگہ دی ہے  ، تاکہ شہر کانظم وترتیب خراب نہ ہو۔

اب یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا اس جگہ کو آگے بیچنا یا کرایہ پر دینا جائز ہے؟یا صرف حق استعمال کو آگے کرایہ پر دینا یا بیچنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تصریح کے مطابق جب حکومت نے مذکورہ جگہ عوام الناس کو صرف استعمال کےلیے دی ہے، اور کاغذی کارروائی بھی محض نظم برقرار رکھنے کےلیے کرتی ہے تاکہ ہر ایک کے استعمال کی جگہ متعین ہو تو اس صورت میں کسی شخص کا اپنے استعمال کی جگہ کسی اور کو کرایہ پر دینا یا فروخت کرنا جائز نہیں ہے،اس لئے کہ استعمال کرنے والا اس جگہ کو استعمال کرنے کا حق رکھتاہے ، ملکیت کا حق نہیں رکھتا، البتہ اگر کسی نے اس جگہ پر اپنی ذاتی رقم سے کوئی  ریڑھی ، کیبن وغیرہ بنایا تو اپنی بنائی ہوئی چیز کو فروخت کرنا جائز ہوگا، لیکن اس جگہ کے استعمال کے بدلے رقم لینا جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ليس للمستعير أن يؤاجر المستعار من غيره، وإن كانت الإعارة تمليكا عندنا، كذا في الظهيرية."

(کتاب العاریة، الباب الثالث، ج:4، ص:364، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)

وفیه أیضاً :

"وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه فلا ينعقد بيع الكلإ ولو في أرض مملوكة له ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده."

(کتاب البیوع، الباب الأول، ج:3، ص:3، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)

وفیه أیضاً :

"ومنها الملك والولاية فلا تنفذ إجارة الفضولي لعدم الملك والولاية لكنها تنعقد موقوفة على إجازة المالك عندنا."

(کتاب الإجارة، الباب الأول، ج:4، ص:410، ط:المطبعة الکبریٰ الأمیریه)

جواہر الفتاویٰ میں ہے:

”غیر مملوکہ اور افتادہ زمین ، راستےکے کنارے میں ، بازار میں ، میدان میں چلنے کا حق، بیٹھنے کا حق، یا اس میں خریدوفروخت کرنے کا حق ، جس کو قابض نے شرعی اور قانونی طریقے پر نہ خریداہو فروخت کرنا۔

طلبہ کے رہائش، قیام وطعام اور دوسری سہولتوں کے حقوق جو دینی مدارس اور جامعات ، دنیاوی تعلیمی اداروں ، اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی جانب سے حاصل ہیں ان کی خریدوفروخت کرنا ، یہ سب بیوع ناجائزہیں ۔“

( حقوق مجردہ کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے، ج:3، ص:81، ط:اسلامی کتب خانہ )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144606100037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں