ایک شخص نے حکومت کو دس ہزار روپے ادا کیے اس شرط پر کہ اگر وہ ایک سال تک بیمار ہوا جس پر زیادہ خرچہ آئے گا تو حکومت اپنی طرف سے اس کی بیماری کا خرچہ ادا کرے گی، اب اگر وہ شخص بیمار ہوا اور حکومت نے اس پر دس ہزار سے زیادہ خرچہ کردیا، یہ ایک صورت ہے، یا وہ پورے سال میں بیمار ہی نہیں ہوا اور حکومت مفت میں دس ہزار روپے کی مالک ہوگئی،اورحکومت نے وہ رقم دوسرے بیماروں پر لگادی، یہ دوسری صورت ہے، ان دونوں صورتوں کا کیا حکم ہے ؟کیا حکومت کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جائز ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ صورت ”بیمہ / انشورنس “ کی ہے، یہ طریقہ شرعاً ناجائزوحرام ہے؛ اس لیے کہ یہ اپنی اصل وضع کے اعتبارسے یاتوقمار(جوا)ہے یا ربوا(سود)ہے۔"جوا" اور"سود" دونوں کی حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
"سود" اس اعتبار سے ہے کہ بیمار ہونے کی صورت میں اگر خرچہ زیادہ ہو تو جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں میں اگر بیمار وغیرہ نہ ہوتو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی۔
اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا یہ معاملہ ناجائز ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]
شرح معانی الآثار میں ہے:
" عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»".
(2/313، کتاب الکراهة، ط: حقانيه)
صحیح مسلم میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".
(4/483، کتاب البیوع والاقضیہ، ط: مکتبہ رشد، ریاض)
فتاوی شامی میں ہے:
"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".
(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201285
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن