بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حبلیٰ من الزنیٰ سے نکاح کرنے کے بعد اس کو چھوڑنے کا حکم


سوال

میرا اپنے چچا کی بیٹی سے نکاح ہوچکاتھا، لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی، ایک دوسرے محلے کی لڑکی جوکہ ہمارے محلے میں گٹکےوغیرہ بیچتی تھی، جس کی اپنے شوہر سے طلاق ہوچکی تھی، اور اس کے دو بچے بھی ہیں، اس سے میرے جسمانی تعلقات تھے، اور اس سے تین چار مرتبہ ہم بستری بھی ہوئی تھی، نیز اس لڑکی کے ساتھ  اس کے محلے کے دیگر لڑکوں کا بھی جسمانی تعلق تھا، ا س نے میرے اوپر الزام لگایا کہ اس کے پیٹ میں ميرا  بچہ  ہے، تو اس لڑکی کے گھر والوں نے مجھ پر دباؤ ڈالا  کہ تم اس کے ساتھ نکاح کرو اور پولیس کی دھمکی دی، تو میں نے دباؤ میں آکر اس لڑکی سے نکاح  کرلیا اور وہ اس وقت حمل کی حالت میں تھی۔

اب دریافت یہ کرنا ہےکہ: اس لڑکی سے میرا نکاح منعقد ہوگیاہے یانہیں؟ جب کہ وہ حمل کی حالت میں تھی، اگر نکاح منعقد ہوچکاہے تو میں اس کو علیحدہ کرنا چاہتاہوں، اس کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا نکاح مذکورہ لڑکی کے ساتھ منعقد ہوچکا ہے، کیوں کہ  زنا كرنے والے شخص كا اس عورت کے ساتھ نکاح شرعاً منعقد ہوجاتا ہے، جس سے اس نے زنا كيا ہو۔باقی مذکورہ صورت حال جو پیدا ہوئی ہے اس کا سائل خود ہی ذمہ دار ہے لہذا اس بارے میں سائل سوچ سمجھ کر جو فیصلہ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

''ولو زنى بامرأة فحملت، ثم تزوجها فولدت إن جاءت به لستة أشهر فصاعدا ثبت نسبه، وإن جاءت به لأقل من ستة أشهر ‌لم ‌يثبت ‌نسبه إلا أن يدعيه ولم يقل: إنه من الزنا أما إن قال: إنه مني من الزنا فلا يثبت نسبه ولا يرث منه كذا في الينابيع".

(كتاب الطلاق، الباب الخامس في ثبوت النسب، ج:1، ص:540، ط:رشيدية)

المحيط البرہانی میں ہے:

"رجل زنى بامرأة فحملت منه فلما ‌استبان ‌حملها تزوجها الذي زنى بها فالنكاح جائز، فإن جاءت بالولد بعد النكاح لستة أشهر فصاعداً يثبت النسب منه وترث منه، لأنها جاءت به في مدة حمل بأنه عقيب نكاح صحيح، فإن جاءت به لأقل من ستة أشهر لا يثبت النسب ولا ترث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني ولم يقل من الزنى".

(کتاب النکاح، الفصل السابع عشر في ثبوت النسب، ج:3، ص:125، ط:دار الكتب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں