بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حنفیہ کے ہاں نماز ظہر کا وقت/ ظہر کے وقت میں عصر کا نماز پڑھنا


سوال

 ایک حنفی شخص کی ظہر کی جماعت نکل گئی، اب اس نے کسی غیر مقلدین کی مسجد میں عصر کی نماز پڑھ لی، ابھی حنفی حضرات کے یہاں ظہر کا وقت باقی ہے اور وہ شخص اپنی چھوٹی ہوئی ظہر پڑھنا چاہتا ہے تو وہ قضا پڑھے یا ادا ؟

جواب

جو آدمی جس امام کی اقتدا کرے ضروری ہے کہ تمام مسائل میں اسی امام کے اجتہادات اور تخریجات کے مطابق عمل کرے، ایک مسئلے میں کسی امام کا قول لینا، دوسرے میں کسی اور امام کا، شرعاً جائز نہیں ہے، اس سے خواہش پرستی کا دروازہ کھلے گا، نیز ”تلفیق بین المسالک“ کی نوبت آئے گی جو قطعا جائز نہیں ہے“ اس اعتبار سے  مقلد پر لازم ہے کہ وہ ایک متعین مذہب کی اتباع میں اپنی پوری کوشش کرے،اس تمہید کے بعد حنفیہ کے ہاں مفتی بہ قول کے موافق ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال کے بعد سے شروع ہوکر  مثلِ ثانی کے آخر تک ہوتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ، اصلی سایہ کے علاوہ اس چیز کے دو مثل ہوجائے،اس کے بعدعصر کا وقت شروع ہوجا تا ہےاور غروب آفتاب تک باقی رہتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ  میں   ایک حنفی شخص سے جب  ظہر کی جماعت نکل گئی،پھر  اس نے کسی غیر مقلدین کی مسجد میں عصر کی نماز ظہر کے وقت میں  پڑھ لی، تو اس کی عصر کی نماز نہیں ہوئی، کیونکہ وہ اپنے وقت سے پہلے پڑھی گئی باوجود اس کے کہ اس  کے ذمے  وقتی نماز باقی ہے ،اور ظہر کی نماز لا محالہ ادا ہی پڑھےگا،تو جمع بین الصلاتین فی  وقت واحد :یعنی دو نمازوں کو ایک نماز کے وقت میں پڑھنالازم آئےگاجو کہ  ناجائز ہے ،تواب وہ  شخص اپنی چھوٹی ہوئی ظہر پڑھنا چاہتا ہےتو ظہر کے وقت میں ظہر کی نماز ادا کرے گا ،کیونکہ حنفیہ کے ہاں ظہر کا وقت باقی ہے،اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں ہی ادا کرےگا۔

ارشاد ربانی ہے

"إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ كِتَابًا مَوْقُوتًا . ﴿ سورةالنساء:١٠٣﴾

ترجمہ:یقیناً نماز  مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔(از بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأن الحكم الملفق باطل بالإجماع، وأن الرجوع عن التقليد بعد العمل باطل اتفاقا، وهو المختار في المذهب اھوفی حاشية ابن عابدين: (قوله: وأن الحكم الملفق) المراد بالحكم الحكم الوضعي كالصحة.(إلی قوله) والتلفيق باطل اه. "

(مقدمه، ج:1، ص:75، ط: دارالفکر)

فیه أیضاً:

"ولو كان لكل مذهب إمام كما في زماننا فالأفضل الاقتداء بالموافق سواء تقدم أو تأخر، على ما استحسنه عامة المسلمين وعمل به جمهور المؤمنين من أهل الحرمين والقدس ومصر والشام، ولا عبرة بمن شذ منهم. اهـ. والذي يميل إليه القلب عدم كراهة الاقتداء بالمخالف ما لم يكن غير مراع في الفرائض، لأن كثيرا من الصحابة والتابعين كانوا أئمة مجتهدين وهم يصلون خلف إمام واحد مع تباين مذاهبهم، وأنه لو انتظر إمام مذهبه بعيدا عن الصفوف لم يكن إعراضا عن الجماعة للعلم بأنه يريد جماعة أكمل من هذه الجماعة اه."

( کتاب الصلاۃ، باب الامامة، ج:1، ص:564، ط: دا رالفکر)

وفیه أیضاً:

"هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى: أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض، فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض".

(كتاب الصلاة ، ج:1، ص :359، ط:سعید)

شرح المہذ ب  میں ہے:

"ووجھه أنه لو جاز اتباع أي مذھب شاء لا فضی إلی أن یلتقط رُخَص المذاھب متبعا ھواہ ویتخیر بین التحلیل والتحریم والوجوب والجواز وذلک یؤدي إلی انحلال ربقة التکلیف بخلاف العصر الأول فإنه لم تکن المذاھب الوافیة بأحکام الحوادث مھذبة : فعلی ھذا یلزمه أن یجتھد في اختیار مذھب یقلدہ علی التعیین."

(شرح المهذب: ج:1، ص:55، ط: بیروت)

فتاوی  ہندیہ میں  ہے :

"ووقت الظهر من الزوال إلى بلوغ الظل مثليه سوى الفيء، كذا في الكافي. وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي. والزوال ظهور زيادة الظل لكل شخص في جانب المشرق، كذا في الكافي. وطريق معرفة زوال الشمس وفيء الزوال أن تغرز خشبة مستوية في أرض مستوية فما دام الظل في الانتقاص فالشمس في حد الارتفاع، وإذا أخذ الظل في الازدياد علم أن الشمس قد زالت، فاجعل على رأس الظل علامةً، فمن موضع العلامة إلى الخشبة يكون فيء الزوال، فإذا ازداد على ذلك وصارت الزيادة مثلي ظل أصل العود سوى فيء الزوال يخرج وقت الظهر عند أبي حنيفة  رحمه الله، كذا في فتاوى قاضي خان. وهذا الطريق هو الصحيح، هكذا في الظهيرية. قالوا: الاحتياط أن يصلي الظهر قبل صيرورة الظل مثله، و يصلي العصر حين يصير مثليه؛ ليكون الصلاتان في وقتيهما بيقين".

( الفتاوى الهندية، کتاب الصلاۃ، ج:1، ص:51، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

'' (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة).

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء». وعن ابن مسعود مثله''.

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:381، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں