بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاں چھوڑ دی کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میری اپنی بیوی سے وقفے وقفے سے لڑائی ہوتی رہتی ہے ، سسر صاحب تصفیہ  کے لئے آتے ہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کو لے جائیں،  اور کچھ دن بعد سمجھا بجھا کے بھیج دینا،  اب کی بار بھی لڑائی ہوئی،   حسب  سابق سسر صاحب تصفیہ  کے لیے آئے،  تو میں نے ان سے کہا کہ اپنی بیٹی کو لے جائیں،  سسر صاحب نے چھوٹتے ہی کہا چھوڑ دی، میں نے کہا ، آپ اسے لے جائیں، سسر صاحب نے دوبارہ کہا، چھوڑ دی نا، میں نے دوبارہ یہی جواب دیا کہ آپ اسے لے جائیں، سسر صاحب نے جب سہ بار کہا کہ چھوڑ دی نا، تو میں نے  جھنجھلاٹ میں کہا"   ہاں چھوڑ دی " آپ اسے فی الحال یہاں سے لے جاؤ، میں نے سسر کے پریشرائز کرنے پر یہ لفظ استعمال کیا، ورنہ طلاق کا میرا قطعی کوئی ارادہ نہیں تھا،   دریافت طلب امر یہ ہے کہ  کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟  اگر طلاق واقع ہوئی تو کتنی؟ اور  رجوع  کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  سائل نے سسر کے چھوڑ دی نا؟ کے جواب میں  ایک مرتبہ یہ کہاکہ "ہاں چھوڑ دی"تو اس سے سائل کی  بیوی پر  ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، شوہر عدت کے دوران  اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو  عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے ،اگر عدت گزر گئی تو دوبارہ نئے مہر و گواہو ں کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا، رجوع یا تجدید نکاح کے بعد آئندہ کے لئے   شوہر  کے پاس مزید  دو  طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3، ص:299، ط:سعید) 

وفيه أيضا:

"وقد مر ان الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفا الافيه من اي لغة كانت،وهذا في عرف زمانناكذلك فوجب اعتباره صريحا."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:252، ط: سعيد) 

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144601101865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں