بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہمبستری کے 13 مہینے بعد بچہ پیدا ہو تو نسب کس کو جائے گا؟


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ایک عورت کی شادی کو 10 سال گزر گئےاور اللہ تعالی نے 3 بیٹے بھی عطا کیے،اس کے بعد عورت کا شوہر سعودیہ چلا گیا،اس کے جانے کے تقریباً 13 مہینوں کے بعد عورت کے ہاں ولادت ہوئی تو خاوند کے رشتہ داروں نے کہا کہ یہ بچہ ولد زنا ہے،جب اس بات کا پتہ  عورت کے والدین کو چلا تو انہوں نے عورت کے خاوند سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ تو خاوند نے اقرار کیا کہ میرے رشتہ دار میرےبچوں کی خوشیاں برباد کرناچا ہ رہے ہیں،یہ میرا بچہ ہے اور میں اس کا اقرار کرتا ہوں اورآپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے بچوں کو سنبھالیں عورت اپنے بچوں سمیت والدین کے گھر آئی اور تقریباً ایک ماہ کے بعد بچہ (چوتھا) پیدا ہو گیا،عورت کےو الدین اس وجہ سے خاموش تھے کہ عورت کا خاوند اقرار کر رہا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔

اب اس بچے کی عمر 8 ماہ کی ہو گئی ہے،اس دوران خاوند اورعورت کے خاندان والوں کے درمیان اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی،اب خاوند نے عورت کو14 اکتوبر 2021ءان الفاظ سے ایک طلاق دی کہ "میں اس(عورت کا نام لے کر)کو آزاد کر رہاہوں"اور شوہر کی نیت ان الفاظ سے طلاق کی تھی اور شوہر نے ساتھ یہ  بھی کہا کہ کہ یہ ایک طلاق  ہے ،ایک مہینے کے بعد دوسری طلاق خود بخود ہو جائے گی اور کہا کہ یہ بچہ ناجائز تعلقات کی بنیاد پر ہے اور شوہر کے بھائیوں نے عورت پر غلط الزام لگایا کہ تقریباً دس  آدمیوں سےاس کے ناجائز تعلقات ہیں۔جب عورت سے پوچھا گیا تو اس  بات کے لیے تیار ہے کہ میں کتاب اللہ پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھانے  کو تیار ہوں کہ میں نےکوئی ناجائز تعلقات قائم نہیں کیے ہیں اور نہ یہ بچہ ولد زنا ہےبلکہ یہ بچہ میرے خاوند کا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کے والدین تین بچے تو لے گئے اور چوتھے بچے کے بارے مین کہتے ہیں کہ یہ ناجائز تعلقات کی بنیاد پر ہوا ہے لہذا ابھی تک وہ عورت والوں کے پاس ہے،ابھی تک خاوندکےگھر والے کوئی واضح ثبوت پیش نہ کرسکے،اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ بچہ کس کے پاس رہے گااور اس کا نسب کس کو جائے گا؟اگر ماں کے پاس رہے تو پرورش کے اخراجات کس کے ذمہ ہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں اکثر مدت حمل دو سال ہے یعنی اگر  وقت نکاح کے دو سال بعد بھی بچہ پیدا ہو جائے تو وہ  شوہر کا ہی ہوگا اور اس کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا اور سفر وحضر کا اس بارے میں شریعت نے کوئی فرق نہیں کیایعنی نکاح کے بعد اگر چہ شوہر سفر پر ہو تب بھی اس کے بیٹے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ بچے کا نسب عورت کے شوہر سے ثابت ہے،اس کی پرورش کا سارا خرچہ اس کے والد پر ہے،یہاں تک کہ  بچہ بالغ ہو جائے اور کمائی کے قابل ہو جائے،البتہ سات سالکی عمر  تک پرورش کاحق ان کی والدہ کو حاصل ہے، بشرطیکہ والدہ بچوں کے کسی غیرمحرم سے نکاح نہ کرے ، اگر والدہ   نےدوران پرورش بچوں  کے کسی غیر محرم (اجنبی ) شخص سے نکاح کرلیاتو والدہ کاپرورش کا حق ختم ہو جاتا ہےاور یہ حق بچے کی نانی ،دادی ،خالہ اور پھوپھی کو بالترتیب حاصل ہوجا تا ہے،جب بچہ مذکورہ عمرکو پہنچ جائےتو پھر باپ کو لینے کاحق حاصل ہو گا۔

2۔شوہر نے جب سائل کی بہن کو  یہ الفاظ کہےکہ "میں اس (بیوی کا نام لے کر) کوآزاد کررہاہوں "پھر کہا کہ" ایک مہینے کے بعد دوسری طلاق خود بخود واقع ہو جائےگی" توان الفاظ کے کہنے  کے وقت سائل کی بہن پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی   اور میاں بیوی کا نکاح ختم ہو گیا  تھا،پھر ایک مہینے بعد دوسری طلاق بائن بھی واقع ہوگئی ،شوہر کو رجوع کا حق نہیں  البتہ باہمی رضامندی سے  شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول سے نکاح ہو سکتا ہے،آئندہ  کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار حاصل ہو گا،اگر  بیوی سابقہ شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح پر راضی نہیں  تو عدت (پوری تین ماہواریاں) گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

3۔واضح رہے کہ کسی مسلمان (مرد یا عورت) پر بہتان(جس کا کوئی ثبوت نہ ہو) لگانا سخت گناہ ہے،قران وحدیث میں ایسے شخص  کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں ، چناچہ رسول پاک ﷺ نے فرمایاکہ" ایسے شخص کو قیامت کے دن پل صراط پر روک کر کہا جائے گاکہ اس بہتان کا ثبوت پیش کرو تب آگے جانے کی اجازت ہوگی"اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایسے شخص کو جہنمیوں کے خون وپیپ میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس بہتان کا ثبوت پیش کرسکے،سائل کے بہنوئی اور اس کے خاندان والوں پر لازم ہے کہ سچی توبہ کریں اور غلط الزام لگانے پر مذکورہ  عورت سے معافی مانگیں۔

مشكاة ميں روایت ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حمى مؤمنا من منافق بعث الله ملكا يحمي لحمه يوم القيامة من نار جهنم ومن رمى مسلما بشيء ‌يريد ‌به ‌شينه حبسه الله على جسر جهنم حتى يخرج مما قال» . رواه أبو داود

(کتاب الاداب،باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق ج1390/3 ط:المکتب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى. وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.۔۔(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."

                                                                 ( کتاب الطلاق باب الحضانۃ ج3،ص566 ط:سعید)

شامی میں ہے:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقهاأو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب"۔

   (باب الحضانۃ ،ج 3/563ط:سعید)

 ہندیہ میں ہے:

"ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان"                             

   (الفصل الرابع فی نفقۃ الاولاد ج 1/563،560 ط:دارالفکر)

البحرالرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وأعتقتك مثل ‌أنت ‌حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل ‌أنت ‌حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق"۔

(باب الکنایات فی الطلاق ،ج325/3 ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌الصريح ‌يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة ۔۔۔۔۔(قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية۔"

(کتاب الطلاق ج 3ص308ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه اعترف به الزوج أو سكت، فإن جحد الولادة تثبت بشهادة امرأة واحدة تشهد بالولادة كذا في الهداية"۔

(الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب ج 536/1 ط:دارالفکر)

البحرالرائق میں ہے:

"والأصل أن أقل ‌مدة ‌الحمل ستة أشهر وأكثرها سنتان"۔

(باب ثبوت النسب ج 170/4ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں