بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حلال اور حرام مال ملا کر کاروبار کرنا


سوال

 زید نے بکر سے مضاربت کے لیے پیسے لیے، جب کہ وہ پیسے بکر نے حرام طریقے سے کمائے ہیں،زید اور بکر دونوں کا نفع اس مضاربت میں 50 ، 50 فیصد طے ہوا،اب اس کاروبار سے جو نفع ہوگا وہ زید کے لیے حلال ہوگا یا نہیں ؟وضاحت فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کے لیے اپنے حلال حصے کانفع لینا تو جائز ہے، لیکن اگر  زید کو  بکر کے مال  کے حرام ہونے کا یقین ہےتو  زید کے لیےبکر سے یہ  معاملہ ختم کرنا ضروری ہے،اور حلال مال کے ذریعہ کاروبار وغیرہ کرنا لازم ہے،نیز بکر نے جتنی رقم حرام کی لگائی ہے،اتنی رقم صدقہ کر لے بغیر کسی نیتِ ثواب  کے تو  اس صورت میں موجودہ کاروبار کو برقرار رکھنا بھی جائز ہے۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌ما اجتمع محرم ومبيح إلا غلب المحرم :والعبارة الأولى لفظ حديث أورده جماعة {ما اجتمع الحلال والحرام إلا غلب الحرام الحلال} ."

(القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، من فروعها ما إذا تعارض دليلان أحدهما يقتضي التحريم، والآخر الإباحة قدم التحريم، ص:93 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌آكل ‌الربا ‌وكاسب ‌الحرام ‌أهدى ‌إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ج:5 ص:343 ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں