بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پین کارڈ کو آدھار کارڈ سے لنک کرنے کے لیے بطور ٹیکس سود کی رقم دینے کا حکم


سوال

اب تک جن لوگوں نے پین کارڈ کو ادھار کارڈ سے لنک نہیں کیا ہے ،ان کے بارے میں حکومتِ ہند نے متعینہ تاریخ تک لنک نہ کرنے یعنی منسلک نہ کرنے کی صورت میں ایک ہزار روپیہ جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا ہے،اور متعینہ تاریخ تك بھی لنک نہ کیا تو مزید1000 روپےتک کا اضافہ کیا جائے گا، تو اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کہ اس (1000) جرمانے کے اندرسود کی رقم دینا جائز ہے یا نہیں ؟

وضاحت:

پین کارڈ  کا تعارف:ایک مستقل اکاؤنٹ نمبر ،جو ہر ہندوستانی کے لیے لازمی ہے اور ہر تمام کاروباری لین دین میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پین کارڈ کا استعمال:

(1)کوئی بھی گھر،گاڑی ،مشینری  وغیرہ خریدتے یا فروخت کرتے وقت ،کسی بھی قسم کا ،کاروباری معاملہ کرتے وقت یارقوم کا تبادلہ (جب کہ رقم کم سے کم پچاس ہزار ہو)کرواتے وقت  پین کارڈ ضرور استعمال کرنا ہوتا ہے۔

(2) ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ اس کے بغیر نہیں بن سکتا۔

(3) اس کی وجہ سےٹیکس کی ادائیگی سے نہیں بچا جا سکتا، مثلاً: کوئی شخص مختلف بینکوں میں ذاتی اکاؤنٹس کھلواۓ تاکہ ٹیکس سے بچ  جاۓ، لیکن اس کے  پین کارڈ نمبر کی وجہ سے تمام بینکوں میں موجود  رقم کا پتا چلالیا جاتا ہے۔

(4)اسی طرح اگر  کسی کےانکم ٹیکس  کے گوشواروں میں کوئی  گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کے ذریعے پتا چل جاتا ہے۔

پین کارڈ  کی وجہ سے سہولت:

اگر کسی کے پاس  دس ہزار سے زائد رقم ہے اور اس نے پین کارڈ نمبر حکومت کو دیا ہوا ہے، تو حکومت اس کی رقم پر دس فیصد ٹیکس کاٹتی ہے ورنہ بیس فیصد۔

آدھار کارڈ(بھارتی قومی شناختی کارڈ):

آدھار کارڈ یا مخصوص شناختی اتھارٹی، حکومت ہند کا جاری کردہ ایک تصویری شناختی دستاویز ہے، جو صرف ہندوستانی شہری کے لیے ہے، جوہندوستان میں سب سے زیادہ معتبر شناختی دستاویز مانا جاتا ہے،اس کی تیاری کے دوران میں  شخص کو ایک منفرد اعداد کا مجموعہ فراہم ہوتا ہے، اس کارڈ پر اس شخص کی تصویر، نام اور پتہ موجود ہوتا ہے، ہر ہندوستانی شہری پر پاسپورٹ کی درخوست کے لیے، بینک کے کھاتے کے لیے اور تقریباً ہر سرکاری کام کے لیے آدھار کارڈ لازمی قرار دیا گیا ہے۔

جواب

 واضح رہے کہ ہندوستان اسلامی ملک نہیں ہے،اس لیے وہاں کا حکم اور اسلامی ملک کا حکم ایک نہیں ہے،اگر وہاں بینک میں اکاؤنٹ کھولنا ضروری ہے اور اس میں غیر سودی اکاؤنٹ نہیں ہےمجبوراً سودی اکاؤنٹ میں رقم رکھنی پڑتی ہے،تو اس صورت میں اگر بینک حکومت کا ہے،پرائیویٹ نہیں ہے،تو اس صورت میں حکومت کے بینک سے ملنے والی سودی رقم  سے حکومت کا سود ادا کرنا جائز ہوگا،اور اگر بینک حکومت کا نہیں ہےبلکہ پرائیویٹ ہے،تو اس صورت میں سود کی رقم سے حکومت کا ٹیکس ادا کرنا جائز نہیں ہوگا ،بلکہ ثواب کی نیت کے بغیر غریبوں پر صدقہ کردینا لازم ہوگا،اگر پین کارڈ کو آدھار کارڈ سے لنک کرنا لازم ہے،تو عوام کے لیے مجبوراً لنک کرنا جائز ہوگا اور اس کا گناہ حکومت پر ہوگا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾." [البقرة ]

ترجمہ:" اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ "

(بیان القرآن ) 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

( كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، رقم الحديث: ١٥٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق".

(کتاب البیوع،172/12، ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحل له و يتصدق به بنية صاحبه، و إن كان مالًا مختلطًا مجتمعًا من الحرام و لايعلم أربابه و لا شيئًا منه بعينه حل له حكمًا، و الأحسن ديانةً التنزه عنه."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد، 99/5، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والإباحة،385/6،ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

( کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع،  553/9 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں