بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کا مسجد کو گرانا اور مسجد کے لیے جگہ کم پڑجائے


سوال

 ہماری جامع مسجد تھی ، جگہ مسجد کے لیے وقف کی  تھی ، سترہ سال سے مسجد تھی ، لیکن حکومت نے آدھی مسجد گراکر جگہ روڈ میں شامل کردی ہے ، اب جگہ بہت کم رہ گئی ہے ، جس پر مسجد نہیں بن سکتی تو اس جگہ کا مصرف کیاہے ؟ جگہ تھوڑی ہے ، 10 فٹ چوڑائی اور 17 فٹ لمبائی ہے ، یا اس پر چھوٹی مسجد بنادیں ، کیا اس جگہ پر چھوٹی مسجد بنانا درست ہے ؟ اگر اس مسجد کی جگہ  دوسری جگہ لے کر وہاں مسجد بنائیں تو اس کا متولی پر انی مسجد والا ہوگا یاکوئی نیا متولی ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  مسجد کے لیے جو زمین  وقف کردی گئی  تھی  اور اس زمین پر  مسجد سترہ سال سے تعمیر شدہ ہے تو ایسی  صورت میں  اس شرعی مسجد کے بعض حصوں کو گرانا شرعا  حرام اور سخت ناجائز تھا،اس لیے  سڑک اور روڈ کی توسیع کی خاطر شرعی مسجد کو منہدم کرنا اور سڑک میں شامل کرناقطعا جائز نہیں ہےجن لوگوں نے بھی اس کے گرانے میں حصہ لیاہے وہ سخت گناہ گارہوئے ، ان پر توبہ واستغفار لازم ہے ،نیزحکومت پر لازم ہے کہ اس  مسجد کی سابقہ حیثیت بحال کریں  اگر حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں  مذکورہ   مسجد شرعی کی باقی ماندہ مذکورہ  جگہ پر چھوٹی مسجد   بنادی جائے  ، اس مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا شرعاجائز نہیں  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

          "(و يزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله: جعلته مسجدًا) عند الثاني (و شرط محمد) والامام (الصلاة فيه) بجماعة."

(كتاب الوقف، مطلب في أحكام المسجد:4/356، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"و إن أراد أهل المحلة أن يجعلوا شيئًا من المسجد طريقا للمسلمين فقد قيل ليس لهم ذلك وأنه صحيح، ثم نقل عن العتابية عن خواهر زاده إذا كان الطريق ضيقا والمسجد واسعا لايحتاجون إلى بعضه تجوز الزيادة في الطريق من المسجد لأن كلها للعامة اهـ والمتون على الثاني، فكان هو المعتمد لكن كلام المتون في جعل شيء منه طريقا، وأما جعل كل المسجد طريقا فالظاهر أنه لا يجوز قولًا واحدًا."

(كتاب الوقف،مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته:4/378،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

          "إن أرادوا أن يجعلوا شيئًا من المسجد طريقًا للمسلمين فقد قيل: ليس لهم ذلك وأنه صحيح، كذا في المحيط."

(الفصل الأول فيما يصير به مسجدًا و في أحكامه و أحكام ما فيه: 2/457، ط:دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’مسجدیں سب اللہ کی ہیں نہ کسی کو ان کے گرانے کا حق ہے اورنہ بدلنے کا ۔‘‘

( باب أحکام المسجد: 14/517، ط: دارالاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

’’جو مسجد کہ ایک بار شرعی قاعدہ سے مسجدہو جائے وہ قیامت  تک مسجد ہی رہے گی اس کو غیر مسجد کے کام میں نہیں لاسکتے ۔‘‘

 

           (کتاب الوقف :فصل سوم ،مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا،7/44،ط:دارالاشاعت) 

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي میں ہے:

"و عند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه.وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

)الباب الخامس: الوقف، الفصل الثالث حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر(

الدرالمختار میں ہے:

"و شرعًا (حبس العين على) حكم (ملك الواقف و التصدق بالمنفعة ... و الأصح أنه (عنده) جائز غير لازم كالعارية (و عندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب)."

و في الشامية:

"(قوله: على حكم ملك الله تعالى) قدر لفظ حكم ليفيد أن المراد أنه لم يبق على ملك الواقف ولا انتقل إلى ملك غيره، بل صار على حكم ملك الله تعالى الذي لا ملك فيه لأحد سواه، وإلا فالكل ملك لله تعالى."

( کتاب الوقف 4/338ط:سعید)

فتاوی بینات میں ہے:

’’جب کسی جگہ مسجد بن جائے تو زمین کا وہ ٹکڑا تحت الثری سے لے کر آسمان تک تا قیامت حکم مسجد  میں ہی  رہتا ہے۔‘‘

                                                                                                                                (کتاب الوقف 3/640)

البحر الرائق میں ہے:

"هو مسجد أبدًا إلى قيام الساعة لايعود ميراثًا و لايجوز نقله و نقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا، و هو الفتوى، كذا في الحاوي القدسي. وفي المجتبى: و أكثر المشايخ على قول أبي يوسف، و رجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه."

 

(کتاب الوقف 5/272 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں