بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حجامہ لگوانے کی ممنوع تاریخ


سوال

کس دن کو حجامہ لگانے سے منع فرمایا گیاہے؟

جواب

بعض روایات میں منگل کے دن حجامہ لگوانے سے منع فرمایا گیا ہے، جیسے کہ درجِ روایت میں ہے:

"قال: غير موسى كيسة بنت أبي بكرة أن أباها، كان ينهى أهله عن الحجامة، يوم الثلاثاء، ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أن يوم الثلاثاء يوم الدم، وفيه ساعة لا يرقأ»".

(سنن ابی داود، کتاب الطب، باب متی تستحب  الحجامۃ، رقم الحدیث:3862، ج:4، ص:5، ط:المکتبۃ العصریۃ)

"ترجمہ: کیسہ بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ ان کے اباجان ان کے گھروالوں کو منگل کے دن حجامہ لگوانے سے منع فرماتے تھے، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گمان کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا: بلاشبہ منگل کا دن خون کا دن ہے، اور اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس خون بند نہیں ہوتا۔"

تاہم بعض روایات میں منگل کے دن حجامہ لگوانے کو سال بھر کی بیماریوں کا علاج قرار دیا گیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن معقل بن يسار، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الحجامة يوم الثلاثاء لسبع عشرة من الشهر دواء لداء سنة»".

(المعجم الکبیرللطبرانی، معاوية بن قرة، عن معقل بن يسار، ج:20، ص:215، ط:مکتبۃ ابن تیمیۃ)

"ترجمہ: حضرت معقل بن یساررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منگل کے دن سترہویں تاریخ کو حجامہ لگواناسال بھر کی بیماریوں کا علاج ہے۔"

دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ منع والی روایت سترہ تاریخ کی منگل کے علاوہ ہے، اگر منگل سترہ تاریخ کو آرہا ہے تو لگانا اولیٰ ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن ابن عباس، قال: دخلت على رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو يحتجم يوم الثلاثاء، فقلت: هذا اليوم يحتجم؟ قال: "نعم، من وافق منكم يوم الثلاثاء بسبع عشرة مضت من الشهر فلا يجاوزنها حتى يحتجم، فاحتجموا فيه".

(المجروحين لابن حبان ،نافع بن هومز الحمال، ج:17، ص:402، ط:دارالصمیعی)

"ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منگل کے دن حجامہ لگارہے تھے، پس میں نے کہا اس دن بھی آپ حجامہ لگارہے ہیں، آپ نے فرمایا جی ہاں، تم میں سے جس کے لئے مہینے کی سترہ تاریخ منگل کے دن موافق ہوجائےتو وہ اس سے آگے نہ بڑھے یہاں تک کہ حجامہ لگوائے۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(يوم الدم) : أي: يوم غلبته، وقيل معناه: يوم كان فيه الدم أي: قتل ابن آدم أخاه. قلت: ولا منع من الجمع، وأن أحدهما سبب للآخر. (وفيه ساعة لا يرقأ) : بفتح الياء والقاف فهمز أي: لا يسكن الدم فيه، والمعنى أنه لو احتجم أو اقتصد فيه لربما يؤدي إلى هلاكه لعدم انقطاع الدم، والله أعلم. (رواه أبو داود) : ولعله مخصوص بما عدا السابع عشر من الشهر، لما رواه الطبراني والبيهقي عن معقل بن يسار مرفوعا: " «من احتجم يوم الثلاثاء لسبع عشرة من الشهر كان دواء لداء سنة» ".

(کتاب الطب والرقیٰ، ج:7، ص:2877، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں