کیا درج ذیل مسئلہ صحیح ہے؟
’’مسئلہ: گوشت سب میں تول کر تقسیم کریں اندازے سے تقسیم نہ کریں؛ کیوں کہ کسی کے حصے میں زیادہ گوشت گیا تو وہ سود میں شامل ہو جاۓ گا‘‘.
اجتماعی قربانی میں گوشت کی برابر تقسیم وزن کرکے اس صورت میں ضروری ہے جب کہ حصہ دار تقسیم چاہتے ہوں، اور ہر حصہ میں صرف گوشت ہی ہو، ضروری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گوشت اموالِ ربویہ ( موزونی) میں سے ہے، البتہ اگر کسی حصہ میں کلیجی کسی میں پائے، کسی میں معز، کسی میں دل گردہ ہو تو اس صورت میں تمام حصوں کا وزن میں برابر ہونا شرعاً ضروری نہیں، نیز اگر تمام حصہ دار ایک ہی گھر کے ہوں، مشترکہ کھانا پینا ہو نے کی وجہ سے گوشت کی تقسیم نہ چاہتے ہوں یا پورے جانور کا گوشت متفقہ طور پر یا وقف یا صدقہ کرنا چاہتے ہوں، تو اس صورت میں گوشت کی تقسیم شرعاً ضروری نہیں ہوتی، لہذا سوال میں ذکر کردہ مسئلہ درست ہے۔
تنوير الأبصار مع الدر المختارمیں ہے:
"وَيُقْسَمُ اللَّحْمُ وَزْنًا لا جُزَافًا إلَّا إذَا ضَمَّ مَعَهُ الْأَكَارِعَ أَوْ الْجِلْدَ) صَرْفًا لِلْجِنْسِ لِخِلَافِ جِنْسِهِ".
فتاوی شامی میں ہے:
"(قَوْلُهُ: وَيُقْسَمُ اللَّحْمُ) اُنْظُرْ هَلْ هَذِهِ الْقِسْمَةُ مُتَعَيِّنَةٌ أَوْ لَا، حَتَّى لَوْ اشْتَرَى لِنَفْسِهِ وَلِزَوْجَتِهِ وَأَوْلَادِهِ الْكِبَارِ بَدَنَةً وَلَمْ يَقْسِمُوهَا تُجْزِيهِمْ أَوْ لَا، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا لَا تُشْتَرَطُ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْهَا الْإِرَاقَةُ وَقَدْ حَصَلَتْ. وَفِي فَتَاوَى الْخُلَاصَةِ وَالْفَيْضِ: تَعْلِيقُ الْقِسْمَةِ عَلَى إرَادَتِهِمْ، وَهُوَ يُؤَيِّدُ مَا سَبَقَ غَيْرَ أَنَّهُ إذَا كَانَ فِيهِمْ فَقِيرٌ وَالْبَاقِي أَغْنِيَاءُ يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ أَخْذُ نَصِيبِهِ لِيَتَصَدَّقَ بِهِ اهـ ط. وَحَاصِلُهُ أَنَّ الْمُرَادَ بَيَانُ شَرْطِ الْقِسْمَةِ إنْ فُعِلَتْ لَا أَنَّهَا شَرْطٌ، لَكِنْ فِي اسْتِثْنَائِهِ الْفَقِيرَ نَظَرٌ إذْ لَا يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ التَّصَدُّقُ كَمَا يَأْتِي، نَعَمْ النَّاذِرُ يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ فَافْهَمْ (قَوْلُهُ: لَا جُزَافًا) لِأَنَّ الْقِسْمَةَ فِيهَا مَعْنَى الْمُبَادَلَةِ، وَلَوْ حَلَّلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: أَمَّا عَدَمُ جَوَازِ الْقِسْمَةِ مُجَازَفَةً فَلِأَنَّ فِيهَا مَعْنَى التَّمْلِيكِ وَاللَّحْمُ مِنْ أَمْوَالِ الرِّبَا فَلَا يَجُوزُ تَمْلِيكُهُ مُجَازَفَةً. وَأَمَّا عَدَمُ جَوَازِ التَّحْلِيلِ فَلِأَنَّ الرِّبَا لَا يَحْتَمِلُ الْحِلَّ بِالتَّحْلِيلِ، وَلِأَنَّهُ فِي مَعْنَى الْهِبَةِ وَهِبَةُ الْمَشَاعِ فِيمَا يَحْتَمِلُ الْقِسْمَةَ لَاتَصِحُّ اهـ وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ عَدَمَ الْجَوَازِ بِمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَصِحُّ وَلَا يَحِلُّ لِفَسَادِ الْمُبَادَلَةِ خِلَافًا لِمَا بَحَثَهُ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ مِنْ أَنَّهُ فِيهِ بِمَعْنًى لَا يَصِحُّ وَلَا حُرْمَةَ فِيهِ (قَوْلُهُ: إلَّا إذَا ضَمَّ مَعَهُ إلَخْ) بِأَنْ يَكُونَ مَعَ أَحَدِهِمَا بَعْضُ اللَّحْمِ مَعَ الْأَكَارِعِ وَمَعَ الْآخَرِ الْبَعْضُ مَعَ الْبَعْضِ مَعَ الْجِلْدِ عِنَايَةٌ". (كتاب الأضحية، ۶ / ۳۱۷ - ۳۱۸، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144111201868
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن