بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حصہ داروں میں قربانی کے گوشت کی تقسیم


سوال

ہمارے یہاں دس آدمی مل کر ایک بکرا کٹا کر آپسی رضامندی کے ساتھ برابر حصہ ڈال کر  وزن  کیے بغیر تقسیم کرلیتے ہیں،  ایسا کرنا شرعًا کیسا ہے؟

جواب

مشترکہ قربانی خواہ   عید الاضحی کی ہو یا  اس  کے علاوہ   ویسے ہی مشترکہ جانور ذبح کرکے  گوشت  کی برابر تقسیم مقصود ہو اور تمام حصہ دار صرف گوشت ہی چاہتے ہوں تو وزن کرکے برابر برابر حصے دینا ضروری ہے، اس لیے کہ گوشت اموالِ ربویہ ( موزونی)  میں سے  ہے،  البتہ اگر کسی حصے  میں کلیجی،  کسی میں پائے، کسی میں مغز، کسی میں دل گردہ ہو تو اس صورت میں تمام حصوں کا وزن میں برابر ہونا شرعاً ضروری نہیں،  نیز اگر تمام حصہ دار ایک ہی گھر کے ہوں، مشترکہ کھانا پینا  ہو نے کی وجہ سے گوشت کی تقسیم نہ چاہتے ہوں یا پورے جانور کا گوشت متفقہ طور پر  وقف یا صدقہ کرنا چاہتے ہوں، تو اس صورت میں گوشت کی تقسیم شرعاً ضروری نہیں ہوتی،  لہذا سوال میں ذکر کردہ مسئلہ میں  اگر مشترکہ گوشت تقسیم کرنا ہو تو  ایک ایک پایا یا کلیجی  کھال وغیرہ ڈال کر   پھر اندازے سے ہی تقسیم کرلیں ۔

نیز ملحوظ رہے کہ بکرے میں اگر قربانی یا عقیقہ کرنا ہو تو ایک بکرا صرف ایک کی طرف سے کافی ہوگا۔

تنوير الأبصار مع الدر المختار میں ہے:

"وَيُقْسَمُ اللَّحْمُ وَزْنًا لا جُزَافًا إلَّا إذَا ضَمَّ مَعَهُ الْأَكَارِعَ أَوْ الْجِلْدَ) صَرْفًا لِلْجِنْسِ لِخِلَافِ جِنْسِهِ".

فتاوی شامی  میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَيُقْسَمُ اللَّحْمُ) اُنْظُرْ هَلْ هَذِهِ الْقِسْمَةُ مُتَعَيِّنَةٌ أَوْ لَا، حَتَّى لَوْ اشْتَرَى لِنَفْسِهِ وَلِزَوْجَتِهِ وَأَوْلَادِهِ الْكِبَارِ بَدَنَةً وَلَمْ يَقْسِمُوهَا تُجْزِيهِمْ أَوْ لَا، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا لَا تُشْتَرَطُ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْهَا الْإِرَاقَةُ وَقَدْ حَصَلَتْ. وَفِي فَتَاوَى الْخُلَاصَةِ وَالْفَيْضِ: تَعْلِيقُ الْقِسْمَةِ عَلَى إرَادَتِهِمْ، وَهُوَ يُؤَيِّدُ مَا سَبَقَ غَيْرَ أَنَّهُ إذَا كَانَ فِيهِمْ فَقِيرٌ وَالْبَاقِي أَغْنِيَاءُ يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ أَخْذُ نَصِيبِهِ لِيَتَصَدَّقَ بِهِ اهـ ط. وَحَاصِلُهُ أَنَّ الْمُرَادَ بَيَانُ شَرْطِ الْقِسْمَةِ إنْ فُعِلَتْ لَا أَنَّهَا شَرْطٌ، لَكِنْ فِي اسْتِثْنَائِهِ الْفَقِيرَ نَظَرٌ إذْ لَا يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ التَّصَدُّقُ كَمَا يَأْتِي، نَعَمْ النَّاذِرُ يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ فَافْهَمْ (قَوْلُهُ: لَا جُزَافًا) لِأَنَّ الْقِسْمَةَ فِيهَا مَعْنَى الْمُبَادَلَةِ، وَلَوْ حَلَّلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: أَمَّا عَدَمُ جَوَازِ الْقِسْمَةِ مُجَازَفَةً فَلِأَنَّ فِيهَا مَعْنَى التَّمْلِيكِ وَاللَّحْمُ مِنْ أَمْوَالِ الرِّبَا فَلَا يَجُوزُ تَمْلِيكُهُ مُجَازَفَةً. وَأَمَّا عَدَمُ جَوَازِ التَّحْلِيلِ فَلِأَنَّ الرِّبَا لَا يَحْتَمِلُ الْحِلَّ بِالتَّحْلِيلِ، وَلِأَنَّهُ فِي مَعْنَى الْهِبَةِ وَهِبَةُ الْمَشَاعِ فِيمَا يَحْتَمِلُ الْقِسْمَةَ لَاتَصِحُّ اهـ وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ عَدَمَ الْجَوَازِ بِمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَصِحُّ وَلَا يَحِلُّ لِفَسَادِ الْمُبَادَلَةِ خِلَافًا لِمَا بَحَثَهُ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ مِنْ أَنَّهُ فِيهِ بِمَعْنًى لَا يَصِحُّ وَلَا حُرْمَةَ فِيهِ (قَوْلُهُ: إلَّا إذَا ضَمَّ مَعَهُ إلَخْ) بِأَنْ يَكُونَ مَعَ أَحَدِهِمَا بَعْضُ اللَّحْمِ مَعَ الْأَكَارِعِ وَمَعَ الْآخَرِ الْبَعْضُ مَعَ الْبَعْضِ مَعَ الْجِلْدِ عِنَايَةٌ".

(كتاب الأضحية، ۶ / ۳۱۷ - ۳۱۸، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209202305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں